پاہلگام، مقبوضہ جموں و کشمیر میں 22 اپریل کو ہونے والے خونی حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی شدید تر ہوگئی ہے۔
انڈیا نے حملے کا الزام بلا ثبوت پاکستان پر عائد کیا، جبکہ اسلام آباد نے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ اگلے ہی روز، انڈیا نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ معطل کر دیا، ایک ایسا معاہدہ جو دونوں ملکوں کے درمیان طویل تنازعات کے باوجود بھی قائم رہا تھا۔
پاکستان نے فوری طور پر ردعمل دیتے ہوئے 1972 کے شملہ معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی اور انڈیا طیاروں کیلئے فضائی حدود بند کرنے کا اشارہ دیا۔ کشیدگی کا گراف لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے نازک وقت میں، دنیا کی نظریں ایک مرتبہ پھر واشنگٹن پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اگلے 24 گھنٹوں میں انڈین و پاکستانی وزرائے خارجہ سے الگ الگ رابطے کریں گے تاکہ ممکنہ فوجی تصادم کو روکا جا سکے۔
لازمی پڑھیں: روس نے یوکرین کی جانب سے جنگ بندی میں 30 دن کی توسیع کی تجویز مسترد کر دی
واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے واضح کیا کہ “ہم دونوں ممالک سے براہ راست رابطے میں ہیں اور زور دے رہے ہیں کہ معاملات کو مزید نہ بڑھایا جائے۔”
دوسری جانب، پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے منگل کی شب ایک تہلکہ خیز بیان میں انکشاف کیا کہ انہیں معتبر انٹیلیجنس اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بھارت اگلے 24 سے 36 گھنٹوں میں کسی ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری میں ہے۔
انہوں نے انڈیا پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ “انڈیا خطے میں خود ساختہ جج، جیوری اور جلاد بننے کی کوشش کر رہا ہے، جو نہایت خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔”
صورتحال اس قدر نازک ہو چکی ہے کہ صرف ایک غلطی، ایک قدم، پورے خطے کو آگ میں جھونک سکتا ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سفارت کاری جنگ کو روک سکے گی؟ یا پاہلگام کا خون مزید تباہی کی نوید ہے؟