Follw Us on:

جامعہ نعیمیہ نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خلاف فتویٰ دے دیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

جامعہ نعیمیہ کے ڈاکٹر مفتی راغب حسین نعیمی اور مفتی عمران حنفی نے اپنے فتویٰ میں یہ کہا ہے کہ ڈنکی کے ذریعے بیرون ملک جانا نہ تو قانونی طور پر درست ہے اور نہ ہی شرعی طور پر جائز ہے۔

فتویٰ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شریعت محمدی ﷺ میں خودکشی کرنا اور اس کے باعث بننے والے تمام افعال حرام ہیں خود کو موت کے دہانے پر پہنچانا یا ایسا عمل کرنا جو موت کا سبب بنے، قطعی طور پر جائز نہیں ہے۔

فتویٰ میں  مزید کہا گیا کہ بیرون ملک جانے والے افراد کو قانونی طریقے اور محفوظ راستے اپنانے چاہئیں اور ایجنٹ حضرات کے لیے غیر قانونی کام کے عوض پیسے لینا جائز نہیں ہےاس کے علاوہ  حکومت کو انسانی جانوں کے دشمن ایجنٹوں کے بارے میں سخت قانون سازی کرنی چاہیے۔

دوسری جانب پاکستان کے شمالی پنجاب کے لوگوں کیلئے یورپ جنت ہے۔ یہاں سے گھروں میں صرف عورتیں ملتی ہیں مرد سارے سمندرپار رہتے ہیں،ایک گاؤں تو ایسا ہے جس کے بچے بچپن سے ہی باہر منتقل ہونے کے خواب آنکھوں میں سجالیتے ہیں۔زیادہ لوگ غیر قانونی طریقوں سے باہر جاتے ہیں،کئی تو اس کوشش میں سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتے ہیں۔

بی بی سی اردو کے مطابق ہر سال 80 ہزار سے ایک لاکھ پاکستانی بہترمعاشی مواقع کے لئے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔  یہ سفر خطرات اور جان لیوا حالات سے بھرا ہوتا ہےجس میں بے رحم اسمگلران افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ان افراد کو غیر قانونی تارکینِ وطن بھی کہا جاتا ہے۔

لفظ ‘ڈنکی’  جو انسانی اسمگلنگ سے متعلق استعمال ہوتا ہے ایک پنجابی محاورے سے لیا گیا  ہے جس کا مطلب ہے غیر قانونی طور پر کسی جگہ جانا  جیسے کہ ایک گدھے کی طرح چھلانگ لگانا۔

ہر سال 80 ہزار سے ایک لاکھ پاکستانی بہترمعاشی مواقع کے لئے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔(فوٹو: ہیرالڈ ڈاون)

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سیف اللہ ،  جواٹلی جانے کے لیے غیر قانونی طور پر کشتی کے حادثے میں ہلاک ہو گیاتھا،  کی والدہ بتاتی ہیں کہ سیف اللہ ایک محنت کش تھا اور گھر کی مالی حالت بہتر کرنے کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ اپنی بہنوں کی شادی اور گھر کی حالت بہتر بنانے کی امیدیں لگا کر روانہ ہوا تھا۔

 اپنے سفر کے دوران اس نے کئی مشکلات برداشت کیں جیسے پیدل چلنا اور کم کھانا پینا اورآخرکار اس کی زندگی کا یہ سفر آخری سفر ثابت ہوا ۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ اب وہ اس خطرناک سفر کی حمایت نہیں کرتیں اور دوسروں کو ایسی کوششوں سے روکنے کی نصیحت کرتی ہیں۔

اسی طرح مدثر علی نامی شخص بھی اپنے غیر قانونی سفر کی کہانی سناتے ہیں جس میں انھیں جسمانی تشدد، دھوکہ دہی اور خطرناک  حالات کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے کئی مرتبہ اس راستے کو اختیار کیا لیکن ایک مرتبہ واپس آ کر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔

مدثر علی  دوسرے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ایجنٹس کی طرف سے دکھائے گئے سبز باغ حقیقت سے بہت مختلف ہیں۔

یہ دونوں داستانیں غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس کے باعث خاندانوں کی زندگیوں پر پڑنے والے گہرے اثرات کو اجاگر کرتی ہیں۔

فروری 2024 میں ایک جہاز جو ترکی سے لیبیا کے راستے اٹلی جاتے ہوئے غرق ہو گیا تھا جس میں پاکستانی مسافر بھی سوار تھے۔پولیس کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ انہوں نے اس راستے پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد کو جہاز کے غرق ہونے تک کیوں نہیں سمجھا۔

گزشتہ سال 19,000 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا۔ (فوٹو: بی بی سی)

ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ کئی مسافر جائز دستاویزات اور ویزوں کے ساتھ دبئی یا مصر کے لیے پرواز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ سال 19,000 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا ۔

ڈنکی لگانے کی مختلف مذہبی، سیاسی، اور اقتصادی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا تعلق مختلف معاشرتی اور ثقافتی پس منظر سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں بعض فرقوں میں مذہبی رہنماؤں کی ہدایات کے تحت  ڈنکی لگانے کو روحانی ترقی یا عقیدے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔مثلاًمیانمارحکومت کے مظالم سے تنگ ہزاروں افراد ڈنکی لگاکر بنگلہ دیش پہنچے تھے ،ان میں متعدد راستے میں ہی ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

کبھی کبھاراپنے ملک میں  کام کے حالات یا بیرون ملک معاشی فائدے کی بنیاد پربھی افراد ڈنکی لگا کر ملک سے باہر جاتے ہیں۔بعض ثقافتوں یا علاقوں میں مزدوروں یا کام کرنے والوں کو جسم پر نشان لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کام کی جگہ تک پہنچ سکیں اور انہیں مخصوص حقوق یا مراعات دی جا سکیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات پر مخصوص نشان یا علامات معاشی یا تجارتی شناخت کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جو کسی خاص کاروبار یا صنعت کے افراد کے درمیان تعلقات اور شناخت کا ذریعہ بنتی ہیں۔

معاشی، قانونی، سماجی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے معاملات بھی ڈنکی کا باعث بنتے ہیں۔ حقیقت میں یہ غیر قانونی کام مقامی معیشت پر دباؤ ڈالتا ہے، قانونی مسائل پیدا کرتا ہے اور اس سے افراد کو استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔

اس کے حل کے لیے قانونی ہجرت کے راستوں کی فراہمی سرحدوں کی بہتر نگرانی، تعلیمی پروگرامز، بین الاقوامی تعاون اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے غیر قانونی ہجرت کو کم کرنے اور عالمی امن و استحکام کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

یہ دونوں رپورٹیں اور فتویٰ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس کے سماجی و اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر قوانین اور نگرانی کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لئے حکومتوں کو سخت قانون سازی کرنی چاہیے اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف عالمی تعاون ضروری ہے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس