پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان نا امیدی کا شکار ہیں، ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام نے تعلیم یافتہ طبقے کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں پر نہ ملازمت کے مواقع ہیں اور نہ ہی کوئی اور راستہ ہے۔
ادارہ شماریات کی 2023ء کی آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری کے مطابق ملک میں بےروزگاری کی شرح 22 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے، جو انتہائی تشویشناک بھی ہے، اگر نوجوان اسی طرح ناامیدی کا شکار ہوں گے اور ان پر مایوسی چھائی ہو گی تو ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بے روزگاری نوجوانوں میں خود اعتمادی کی کمی، اضطراب اور ڈپریشن جیسی علامات کو بڑھا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جب چھوٹی موٹی ملازمت بھی حاصل نہ کر سکیں تو وہ خود کو ناکام سمجھنے لگتے ہیں،یہ اساس نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے،اس سے کسی بھی طرح سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوں گے۔
پاکستان میں روزگاری کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان اضطراب کا شکار ہے اس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اور مارکیٹ کے درمیان ربط کا فقدان، انٹرن شپ اور ٹریننگ کے مواقع کی کمی، اور نجی و سرکاری شعبوں میں محدود نوکریاں اس وقت بے روزگاری کی بنیادی وجوہات ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر مواقع سست روی کا شکار ہیں۔
پہلے پہل تو پاکستان میں نظام تعلیم کی پالیسیز اس طرح سے ترتیب دی جاتی ہیں جس سے عملی مہارتیں نوجوانوں میں پیدا نہیں ہوتی ، جس سے روزگار کے تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ممکن ہےاس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا نظامِ تعلیم نظریاتی معلومات پر مبنی ہے اور عملی مہارتوں پر کم توجہ دیتا ہے۔ انڈسٹری کی ضروریات کے مطابق کورسز کی کمی اور اپڈیٹ نہ ہونے والے نصابِ تعلیم نے گریجویٹس کو غیر موزوں بنا دیا ہے۔ اب نوجوان ڈگریاں لینے کے بعد بھی دربدر بھٹکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
نوجوانوں کے روزگار کے لیے حکومت کی طرف سے موثر پالیسیز نہیں بنائی جاتی جس سےمواقع نہ ملنے کی وجہ سے نوجوانوں میں نا امیدی پیدا ہو جاتی ہے، اس حوالے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ کئی پروگرامز جیسے کامیاب جوان اور ہنر مند پاکستان اچھے اقدامات تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا دائرہ محدود اور عملدرآمد غیر مؤثر رہا۔ شفافیت، تسلسل اور نجی شعبے کی شراکت کے بغیر یہ پالیسیاں دیرپا فائدہ نہیں دیتی۔
برطانیہ نے گزشتہ روز ایک رپورٹ پبلش کی تھی جس کے مطابق ایک لاکھ آٹھ ہزار دیگر ممالک کے شہریوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کے لیے درخواستیں جمع کرائیں ، جس میں سب سے زیادہ پاکستانیوں نے دراخواستیں جمع کرائیں تھی۔
موجودہ صورتحال کی وجہ سے ہر دوسرا نوجوان پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک سکونت اختیار کرنا چاہتا ہے تاکہ بیرون ملک جا کر اپنا مستقبل بہتر بنایا جا سکے ، اس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکر حسن معید نے کہا کہ بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی صورتحال نے نوجوانوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ کامیابی صرف ملک سے باہر جا کر ہی ممکن ہے۔ بیرونِ ملک مواقع، بہتر معیارِ زندگی اور محفوظ مستقبل ان کی سوچ کو متاثر کر رہے ہیں۔
نصاب اس طرح ترتیب دینا چاہیے جو جدید دور سے ہم آہنگی رکھتا ہو اور نوجوانوں کے لیے مواقع فراہم کرتا ہو اس حوالے سے سماجی ماہر داکٹر معید حسن نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں، تاکہ طلبہ صرف کتابی علم نہیں بلکہ عملی مہارتیں بھی حاصل کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت کو لازمی حصہ بنایا جائے، خاص طور پر آئی ٹی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اور دیگر ہنر جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نجی شعبے سے مل کر انٹرن شپس، اپرینٹس شپ پروگرامز اور صنعت و تعلیم کے درمیان پل بنانے جیسے اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ، کیریئر کونسلنگ، اسٹارٹ اپ سپورٹ پروگرامز، اور ہنر مند نوجوانوں کے لیے بلا سود قرضوں کی سہولت بھی لازمی ہے۔
اگر نئی نوکریوں کے مواقع فراہم کیے جائیں تو نوجوانوں میں نا امیدی ختم ہو سکتی ہے اس حوالے سماجی ماہر نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پیداواری شعبوں جیسے زراعت، صنعت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو فروغ دے تاکہ نئی نوکریاں پیدا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارکو آسان قرضے دیے جائیں تاکہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ نوجوانوں کو کاروباری تربیت دے کر خود کفالت کی طرف مائل کیا جائے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کرپشن، ذخیرہ اندوزی اور مڈل مین کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام بھی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اگر ای کامرس کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں تو فری لانسنگ آج کے دور میں ایک مؤثر ذریعہ روزگار بن چکی ہے، اس حوالے سماجی ماہر ڈاکٹر حسن معید نے کہا کہ فری لانسنگ آج کے دور میں ایک مؤثر ذریعہ روزگار بن چکی ہے، خاص طور پر ڈیجیٹل سکلز رکھنے والے نوجوانوں کے لیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، کانٹینٹ رائٹنگ، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبے لاکھوں نوجوانوں کو عالمی مارکیٹ سے جوڑ سکتے ہیں۔ حکومت اگر فری لانسنگ کے فروغ کے لیے تربیتی پروگرامز، انٹرنیٹ سہولیات، اور آن لائن ادائیگیوں کے نظام کو آسان بنائے تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان خود روزگار اختیار کر سکتے ہیں