اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر قبضے اور فوجی کارروائی میں توسیع کے منصوبے نے فلسطینیوں، علاقائی رہنماؤں اور عالمی برادری کو سخت پریشان کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ‘دی اکانومک ٹائمز’ کے مطابق 19 ماہ سے جاری شدید بمباری سے تھکے ہارے فلسطینی اب بھوک، بے گھری اور موت کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔ غزہ سے بے گھر ہونے والے معاز خالوت نے کہا کہ “تمھارے پاس بمباری کرنے کے لیے کیا بچا ہے؟ لوگ GPS سے ملبے میں اپنے گھروں کے نشان ڈھونڈتے ہیں۔”
اسرائیلی کابینہ نے پیر کے روز ایک خفیہ اجلاس میں غزہ پر قبضے اور غیر معینہ مدت تک وہاں قیام کے منصوبے کی منظوری دی، جس کے بعد فوج کے سربراہ نے ہزاروں ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا تھا، جب حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 251 اسرائیلی یرغمال بنائے گئے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اب بھی 59 یرغمالی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 35 کے مارے جانے کا خدشہ ہے۔

اسرائیلی حملوں میں اب تک 52 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ خان یونس کی رہائشی انشرح بعلول نے غیرملکی خبررساں ادارے کو بتایا کہ ہمیں برباد، بے گھر اور مارا گیا ہے، ہم صرف امن اور تحفظ چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کے بیانات نیتن یاہو کی دہشتگرد حکومت کے پھیلائے گئے جھوٹ کی تکرار ہیں، حماس
دوسری جانب اسرائیل میں بھی حکومت کے اس فیصلے پر احتجاج جاری ہے۔ تل ابیب میں پارلیمنٹ کے باہر سینکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا، ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا۔
یرغمالیوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ غزہ پر مزید حملے ان کے پیاروں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
‘دی اکانومک ٹائمز کے مطابق ایڈن الیگزینڈر جو کہ 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنایا گیاتھاکے والد نے کہا ہے کہ “جنگ میں توسیع سے پہلے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، یہ سب ماضی کی دُہراوان لگتا ہے۔”

اسرائیلی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کے دورے تک کارروائی نہیں بڑھے گی، اگرچہ ٹرمپ کا اسرائیل آنا متوقع نہیں، لیکن وہ یرغمالیوں کے معاملے پر مسلسل بات کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سرپرستی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت، کیا پاکستان میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے؟
رفح اور جنوبی غزہ میں صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ ہر روز سیکڑوں افراد مفت کھانے کی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بچے برتن ہاتھوں میں لیے کھانے کے لیے دھکم پیل کرتے ہیں۔
رفح کی رہائشی سارہ یونس کا کہنا تھا کہ”نہ آٹا ہے، نہ کھانے کا سامان، کیا کریں؟ بچوں کو کیا کھلائیں؟”

ایک فلاحی ادارے ‘تکیہ’ کے کارکن نضال ابو ہلال نے کہا ہے کہ ہمیں میزائلوں سے موت کا خوف نہیں، ہمیں اس خوف نے گھیر لیا ہے کہ ہمارے بچے بھوک سے ہمارے سامنے مر جائیں گے۔”
ضرور پڑھیں: فلسطین سے یکجہتی اور اسرائیل و انڈیا کی مذمت: تاجر، وکلا تنظیموں کا جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان
واضح رہے کہ مارچ سے اسرائیل نے غزہ کو تمام درآمدات سے کاٹ دیا ہے، جس سے قحط جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ کی آبادی کی بھاری اکثریت کو امداد پر انحصار ہے۔