10 مئی 2025 کو پاکستان اور انڈیا نے ایک مرتبہ پھر امریکی ثالثی کے نتیجے میں جنگ بندی پر اتفاق کیا، جس کا مقصد خطے میں جاری کشیدگی کو کم کرنا تھا۔ یہ کشیدگی 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پیدا ہوئی، جس میں 27 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انڈیا نے 7 مئی کو رات کی تاریکی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں حملے کردیے اور اسے ‘آپریشن سندور’ کا نام دیتے ہوئے کہا کہ پہلگام واقعے میں ملوث ہونے والے دہشتگردوں کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے، مگر حقیقت وہ اس بات سے کہیں مختلف نکلی۔
انڈیا نے مختلف شہروں پر حملہ کیا اور نشانہ مساجد کو بنایا جس میں مساجد سمیت درجنوں عام شہری بھی شہید ہوگئےاور دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان یہ کشیدگی چھڑ چکی تھی جو کسی بھی وقت عالمی و ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
آوول آفس میں امریکی صدر سے جب اس حملے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ “یہ شرم کی بات ہے، ہم نے ابھی اس کے بارے میں سنا، میرا اندازہ ہے کہ لوگ ماضی کی بنیاد پر جانتے تھے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ کافی عرصے سے لڑ رہے ہیں، وہ کئی کئی دہائیوں سے لڑ رہے ہیں، مجھے امید ہے کہ یہ بہت جلد ختم ہو جائے گا۔

امریکی صدر کے اس بیان نے عوامی حلقوں میں اس سوال کو جنم دیا کہ پاکستان اور انڈیا تو 1947 میں آزاد ہوئے تھے تو پھر وہ کئی صدیوں سے کیسے لڑ رہے ہیں؟
ماہر سیاسیات ڈاکٹر انور محمود نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کا یہ بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسے جنوبی ایشیاء کے ممالک کے معاملات میں کچھ خاص دلچسپی نہیں سوائے چین کے ان ممالک سے اچھے تعلقات نہ ہونے کے، امریکا کو چین کی دن دگنی رات چگنی سے خطرہ ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ چین جنوبی ایشیا ئی ممالک سے اچھے تعلقات بنائے، مزید یہ کہ امریکا کا یہ وطیرہ بھی رہا ہے کہ وہ ان ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتا ہے تاکہ ان میں سے کوئی بھی مستقبل میں ان کے لیے خطرہ نہ بنے۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں پیش آنے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’ نامی تنظیم نے قبول کی، جو کہ بعد میں اپنے بیان سے مکر گئی تھی، انڈیا نے پاکستان سے منسلک قرار دیامگر پاکستان نے انڈین الزامات کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات میں تعاون کرنے کا کہالیکن انڈیانے ‘آپریشن سندور’ کے تحت پاکستان کی سرحدی حدود میں کارروائیاں کیں، جنہیں پاکستان نے جارحیت قرار دیا۔
پہلگام واقعے کے فوراً بعد محض 10 منٹ پر پاکستان پر لگائے گئے الزام نے دنیا کو اس کشمکش میں ڈال دیا کہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی جلدی ایف آئی آر کا اندراج اور اس میں بیرونی آقا کی ایما پر حملہ کیا گیا جیسے الفاظ شامل ہوں، جس کی وجہ سے یہ ایک فالس فلیگ آپریشن سمجھا جانے لگا۔

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے انڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا میں ایک گھنٹے تک دہشت گردی جاری رہی لیکن آٹھ لاکھ فوج کے باوجود کوئی حرکت میں نہیں آیا اور صرف دس منٹ میں پاکستان پر الزام عائد کر دیا گیا۔
3 روز بعد بالآخر پاکستان نے ‘آپریشن بنیان المرصوص’ کے تحت جوابی حملے کیے، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگی کیفیت پیدا ہو گئی۔
کشیدگی کے آغاز سے ہی امریکہ نے فوری طور پر سفارتی سطح پر کوششیں شروع کیں اور بالآخر 10 مئی کو دونوں ممالک جنگ بندی پر رضامند ہو گئے۔ اس میں سعودی عرب، ترکی، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے بھی کردار ادا کیا۔
پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اگر ان کے درمیان کشیدگی جنگ میں تبدیل ہو جائے تو یہ دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکہ ایسی صورتحال کو روکنے کے لیے متحرک رہتا ہے۔
جنوبی ایشیا اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے امریکہ کے لیے اہم خطہ ہے۔ چین کا بڑھتا اثر و رسوخ امریکہ کے لیے چیلنج ہے اور خطے میں امن قائم رکھنا امریکی مفادات کے لیے ناگزیر ہے۔

امریکہ دونوں ممالک کے ساتھ انسداد دہشت گردی میں تعاون کرتا ہے۔ کشیدگی کی صورت میں دہشت گرد گروہوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، جو امریکہ کی عالمی حکمت عملی کو متاثر کر سکتا ہے۔
انڈیا امریکہ کا اہم دفاعی خریدار ہے، جب کہ پاکستان کے ساتھ بھی اس کی دفاعی و اقتصادی وابستگیاں موجود ہیں۔ خطے میں کشیدگی امریکہ کی معاشی پالیسیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔
اگرچہ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے، لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ دونوں ممالک کی افواج تاحال ہائی الرٹ پر ہیں، جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن انڈیا کو سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔”

دوسری جانب انڈین وزیر دفاع کا کہنا تھاکہ “ہم امن چاہتے ہیں لیکن اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا کہ “جنگ بندی ایک عارضی حل ہے۔ جب تک دونوں ممالک تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات نہیں کرتے، امن قائم نہیں ہو سکتا۔”
امریکہ اب دونوں ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں، جس میں مسئلہ کشمیر سمیت دیگر بنیادی تنازعات کا حل تلاش کیا جا سکے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ انڈیا کا خیال تھا کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے اپنی شرائط پر مجبور کیا جا سکتا ہے، لیکن پاکستان کے مؤثر اور غیر متوقع ردعمل نے انڈیا کے طاقت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ انڈیا شاید پاکستان سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں کر رہا تھا۔اگر بات چیت کا دروازہ کھلے گا تو ہم قومی مفادات سے ہٹ کر کوئی بات قبول نہیں کریں گے۔ کشمیر، سندھ طاس اور دہشتگردی جیسے مسائل ہمارے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
پروفیسر انور محمود کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے لیے یہی بہتر ہے کہ تمام سیاسی کشیدگیوں کو بھلا کر اچھے تعلقات قائم کیے جائیں تاکہ ان ممالک کا زیادہ تر پیسہ دفاعی شعبے کی بجائےٹیکنالوجی وغیرہ میں خرچ ہو اور یہ ممالک ترقی کریں، مزید یہ کہ جنگ میں آج تک کوئی نہیں جیتا بس کسی نہ کسی کا خون ہی بہا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی ایک اہم لیکن نازک قدم ہے۔ صدر ٹرمپ کا بیان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ امریکہ کا کردار نہ صرف سفارتی ہے بلکہ اس کے عالمی، اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات بھی اس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ جنگ بندی وقتی سکون فراہم کر سکتی ہے، لیکن پائیدار امن صرف اس صورت میں ممکن ہے جب دونوں ممالک سنجیدگی سے مذاکرات کریں اور خطے کو بار بار جنگ کے دہانے پر لے جانے سے باز رہیں۔