ایران اور امریکا کے اعلیٰ سطحی حکام آج اتوار کو دوبارہ مذاکرات کا آغاز کریں گے تاکہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اختلافات کو حل کیا جا سکے۔ یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر جا رہے ہیں اور واشنگٹن ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کر رہا ہے۔
اگرچہ دونوں ممالک سفارتی حل کو ترجیح دے رہے ہیں، لیکن کئی اہم معاملات پر شدید اختلافات موجود ہیں، جنہیں ختم کیے بغیر نیا جوہری معاہدہ ممکن نہیں ہوگا اور فوجی کارروائی کا خطرہ برقرار رہے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف کی قیادت میں یہ چوتھا مذاکراتی دور عمان کے دارالحکومت مسقط میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں عمانی ثالثوں کا کردار اہم ہوگا۔
امریکی ایلچی وِٹکوف نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا واضح مؤقف ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی بند کرے اور اپنی تمام جوہری تنصیبات ختم کرے، ورنہ بات چیت بند کر دی جائے گی اور امریکا ایک مختلف راستہ اختیار کرے گا۔

ایران نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے جوہری پالیسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ ایران نیک نیتی سے مذاکرات کر رہا ہے، لیکن اگر مقصد ایران کے حقوق محدود کرنا ہے تو ایسا ممکن نہیں۔
ایرانی حکام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایران صرف اُس صورت میں کچھ پابندیاں قبول کرے گا اگر بدلے میں اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں۔ تاہم، ایران کا کہنا ہے کہ یورینیم کی افزودگی ختم کرنا یا اپنے ذخیرے کو حوالے کرنا اس کی “ریڈ لائن” ہے۔
ایک سینیئر ایرانی اہلکار نے کہا کہ امریکا جو بیانات عوامی طور پر دے رہا ہے، وہ اکثر ان باتوں سے مختلف ہوتے ہیں جو بند کمرے کے مذاکرات میں کہی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ، ایران نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بات کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے اور ایک پکی ضمانت کا مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ دوبارہ جوہری معاہدہ ختم نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ 2018 میں ٹرمپ نے 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکا کو نکال لیا تھا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگا دی تھیں، جس کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک بڑھا دی، جو ہتھیاروں کے درجے کے قریب سمجھی جاتی ہے۔