اتوار کی صبح جہاں دنیا کے دیگر حصوں میں یہ دن آرام اور سکون کا پیغام لاتا ہے، وہیں میرے کشمیر پر آج کا سورج خوف، دھماکوں اور بےبسی کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔
لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر گونجتی توپوں کی آواز نے کشمیر کی وادی کو ایک بار پھر جنگ کے سائے میں دھکیل دیا ہے، جہاں کبھی بچے ہنسا کرتے تھے اور پہاڑوں سے ٹھنڈی ہوائیں آیا کرتی تھیں۔
آج وہاں دھواں ہے، بارود ہے اور سہمے ہوئے چہرے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کا سب سے بڑا خمیازہ وہ معصوم لوگ بھگت رہے ہیں، جو ایل او سی کے آس پاس آباد ہیں۔ روز بروز گرتے گولے، خوفناک دھماکے، چیختے بچے اور بے خواب راتیں زندگی وہاں گویا تھم گئی ہے۔
کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر حالیہ فائرنگ کے نتیجے میں 31 افراد جاں بحق اور 123 زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ سینکڑوں گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ اس بحرانی صورتحال میں متاثرہ خاندانوں نے محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
حکومتی سطح پر امداد محدود ہونے کے باعث مقامی نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت میدان میں آ گئے ہیں، جو نہ صرف پناہ گزین خاندانوں کو رہائش فراہم کر رہے ہیں بلکہ خوراک، خون عطیہ اور دیگر بنیادی سہولیات بھی مہیا کر رہے ہیں۔

اس نازک وقت میں نہ کوئی حکومتی مراعات کی اپیل ہے، نہ کسی ادارے کی امداد کا انتظار بلکہ عام کشمیری، عام پاکستانی، اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے خود میدان میں نکل آئے ہیں۔
پلندری میں موجود سردار سیف خان نے ‘پاکستان میٹرز’کو بتایا ہے کہ “جب لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع ہوئی، تو ہمیں اندازہ تھا کہ حالات کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکلے، کوئی سامان ساتھ نہیں، صرف جان بچانا مقصد تھا۔ ہم کشمیری ہیں، ایک دوسرے کا درد سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ حالات بہتر نہیں ہوتے، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ ہمارا فرض ہے۔”
سردار سیف نے بتایا کہ مائیگریٹ کرنے والے افراد کا نہ صرف جسمانی تحفظ ضروری تھا بلکہ ان کے لیے کھانے، پینے اور رہائش کا انتظام بھی ضروری تھا۔ ان کی ٹیم نے راستوں پر کیمپ لگائے، جہاں وہ فیملیز کا استقبال کرتے، ان سے ان کی ضروریات دریافت کرتے اور ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ثقافت اور انسانیت کا جذبہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم ان بے گھر افراد کو اپنے گھروں میں پناہ دیں، انہیں اپنے مہمان سمجھیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں، چاہے یہ مدد طویل عرصے تک جاری رہے۔
سردار سیف کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے کہ وہ ان کے لیے ایک پناہ گاہ بن سکے جو اس وقت خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
فہیم اکبر بتاتے ہیں کہ”ہمارا کوئی ادارہ نہیں، لیکن ہم برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے جُڑے ہیں۔ جب ایل او سی کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے، ہم سے براہ راست رابطہ کیا گیا۔ کئی دوستوں نے اپنے خالی گھروں کی چابیاں بھیج دیں، کچھ نے مکمل مکانات کھول دیے۔ نہ کوئی فنڈ، نہ کوئی مطالبہ، بس جذبہ کہ کوئی اکیلا نہ رہے۔ یہ سب رہائش گاہیں مفت، بغیر کسی معاوضے کے، صرف انسانیت کے جذبے کے تحت فراہم کی جا رہی ہیں۔

اس موقع پر الخدمت فاؤنڈیشن نے بھی ایک بھرپور اور منظم ریلیف آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ “الخدمت فاؤنڈیشن نے 15 موبائل ہیلتھ یونٹس، 50 ایمبولینسیں، ایک کروڑ مالیت کی ادویات، ایک ہزار خیمے اور پانچ ہزار ترپال سمیت امدادی سامان پر مشتمل ٹرک متاثرہ علاقوں میں روانہ کر دیے ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ “الخدمت کے 57 ہسپتال جنگی حالات کے لیے تیار کر دیے گئے ہیں اور 30 فیصد بیڈز ان حالات کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں۔”
آزاد کشمیر کے بارڈر سے ملحقہ ضلع بھمبر میں بھی پنجاب کے عوام خصوصاً مخیر حضرات، میرج ہال مالکان اور ریسٹ ہاؤس اونرز نے اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کر دیا ہے۔
سابق ایم این اے عابد رضا کوٹلہ نے اس جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ انڈین جارحیت کی وجہ سے آزاد کشمیر بارڈر پر بسنے والے پاکستانیوں کے لیے پنجابیوں نے اپنے دل اور گھر کھول دیے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع بھمبر کے ساتھ بسنے والے پاکستانی مخیر حضرات اور خصوصا میرج ہال/مارکی مالکان نے اپنے کشمیری بھائیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کر رکھا ہے اور وہ اپنے کشمیری بھائیوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں اس جذبہ پر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس وقت کشمیر صرف جنگ کا میدان نہیں، انسانیت کا امتحان ہے۔ کشمیری عوام کو جنگ نہیں، زندگی چاہیے اور زندگی صرف امن سے ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان، انڈیا جنگ بندی: خطے کی بدلتی صورتحال میں امریکا کی دلچسپی کیوں؟
یہی وقت ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کے ادارے اور میڈیا اس سچ کو دنیا کے سامنے رکھیں کہ ‘کشمیری امن چاہتے ہیں، بارود نہیں۔’