ہر سال 12 مئی کو دنیا بھر میں “نرسوں کا عالمی دن” منایا جاتا ہے، جو نہ صرف نرسنگ کے پیشے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ان افراد کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہے، جو دن رات مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ دن جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کی یومِ پیدائش کے طور پر بھی یاد رکھا جاتا ہے وہ عظیم خاتون جنہوں نے جنگی میدان میں زخمیوں کی خدمت کو فرض سمجھ کر نرسنگ کو باقاعدہ شعبے کی حیثیت دلوائی۔
نرس صرف ایک تیماردار نہیں، بلکہ مریض کی نفسیات، صحت، جذبات، درد اور امید کا خاموش ساتھی ہوتی ہے۔ اسپتال کی خاموش راہداریوں میں، ایمرجنسی وارڈ کی بھاگ دوڑ میں، آپریشن تھیٹر کی گھمبیر فضا میں ایک نرس ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کا علاج اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نرس اپنے مشاہدے، مہارت اور ہمدردی سے مریض کی مکمل دیکھ بھال نہ کرے۔
یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ
کووڈ-19 جیسی وباؤں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ نرسنگ اسٹاف نے فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سفید لباس پہنے ان سپاہیوں نے صرف جسمانی خدمت ہی نہیں کی، بلکہ امید اور حوصلے کا استعارہ بھی بن گئیں۔
پاکستان میں نرسنگ کا سفر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں سے شروع ہوا، جنہوں نے 1949ء میں ادارہ جاتی بنیاد رکھی۔ آج ملک میں 162 نرسنگ ادارے موجود ہیں، مگر افرادی قوت اور سہولتوں کی شدید کمی اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نرسنگ کو وہ عزت حاصل نہیں جس کی یہ مستحق ہے۔ نائٹ شفٹ کرنے والی نرسوں پر قدامت پسند طبقے کی تنقید، خواتین کے لیے اس پیشے میں داخلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نرسنگ ایک باوقار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم کیریئر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم اب بی ایس سی، ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ سطح تک دستیاب ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے تحت مختلف تربیتی پروگرامز جاری ہیں، لیکن عملی میدان میں نرسز کی کمی، اسپتالوں میں سہولتوں کی قلت، اور صنفی امتیاز، اس شعبے کو ترقی سے روک رہے ہیں۔
دنیا بھر میں نرسنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے، تاہم فلپائن جیسے ممالک نے نرسنگ کو عالمی سطح پر ایکسپورت ایبل پروفیشن بنا کر اپنے عوام کو باعزت روزگار فراہم کیا۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپنا کر نہ صرف مقامی کمی پوری کر سکتا ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔
نرس نہ صرف ایک پیشہ ور ہے، بلکہ ہمارے معاشرے کی بیٹی، بہن، بیٹا اور بھائی بھی ہے۔ نرسنگ کو محض ضرورت کا پیشہ نہیں بلکہ خدمت، ہمدردی، سچائی اور قربانی کی علامت سمجھا جانا چاہیے۔ معاشرتی تعصبات، ثقافتی رکاوٹیں اور فرسودہ خیالات کو پیچھے چھوڑ کر ہمیں اپنے ہیروز کو پہچاننا ہوگا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صحت کا نظام مضبوط ہو، تو ہمیں نرسنگ کو دل سے اپنانا ہوگا۔ یہ پیشہ صرف زندگی بچانے کا نہیں بلکہ زندگی سے محبت کرنے کا نام ہے۔
یاد رکھیے، نرسنگ محض ایک ڈگری نہیں یہ انسانیت کی عبادت ہے۔