کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نے 12 مئی 2025 کو اپنی 40 سالہ مسلح جدوجہد کا خاتمہ اور تنظیم کی تحلیل کا اعلان کردیا۔
یہ فیصلہ شمالی عراق میں منعقدہ 12ویں کانگریس میں کیا گیا جو جیل میں قید رہنما عبداللہ اوجالان کی فروری میں کی گئی اپیل کے بعد منعقد ہوئی۔
اوجالان نے اس وقت تمام PKK ارکان سے ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کی درخواست کی تھی۔ PKK نے اس اپیل کو ‘ذمہ داری’ قرار دیتے ہوئے اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔
PKK کی مسلح جدوجہد 1984 میں شروع ہوئی تھی جس کا مقصد ترکی میں کردوں کے لیے خودمختاری یا آزاد ریاست کا قیام تھا۔ اس دوران 40,000 سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور ترکیہ کی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
PKK کو ترکی، امریکا اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

اوجالان کی اپیل کے بعد PKK نے مارچ 2025 میں ایک عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد 12 مئی کو تنظیم کی مکمل تحلیل کا فیصلہ کیا گیا۔
اس فیصلے کے مطابق PKK اب اپنے مقاصد کو جمہوری اور سیاسی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ ترکی حکومت اوجالان کی رہائی یا اس کے کردار کو قبول کرے گی یا نہیں۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اس فیصلے کو “دہشت گردی سے پاک ترکیہ” کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ PKK کے تمام ذیلی گروپوں، بشمول شام میں موجود YPG کو بھی اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا۔ تاہم، YPG نے اس اپیل کو اپنے لیے لاگو نہیں سمجھا۔
ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقے، جہاں PKK کی سرگرمیاں زیادہ تھیں اور اس علاقے میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
دیاربکر شہر کے رہائشی حسن حسین سیلان نے کہا کہ “یہ واقعی اہم ہے کہ اب لوگ نہیں مریں گے اور کرد مسئلہ ایک جمہوری ڈھانچے میں حل ہوگا۔”
اس فیصلے کے بعد ترکیہ کی معیشت میں بھی بہتری دیکھنے کو ملی ہے جہاں اسٹاک مارکیٹ میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس فیصلے سے عراق اور شام میں بھی کشیدگی کم ہونے کی امید ہے جہاں PKK اور اس سے وابستہ گروہ سرگرم ہیں۔
تاہم، اس فیصلے کے عملی نفاذ میں کئی چیلنجز درپیش ہیں خاص طور پر شام میں موجود YPG اور دیگر کرد گروپوں کی جانب سے اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنا۔
اس کے علاوہ، ترکیہ حکومت کی جانب سے اوجالان کی رہائی یا اس کے کردار کو قبول کرنے کے حوالے سے بھی سوالات موجود ہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ فیصلہ خطے میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گا یا نہیں۔