ایک بار ایک نوجوان نے اپنے استاد سے پوچھا،
“استادِ محترم! کیا آج کے دور میں بھی کوئی ایسا شخص پیدا ہو سکتا ہے جو دین کو صرف مسجد کے اندر نہیں، بلکہ بازار، عدالت، پارلیمنٹ اور میڈیا تک لے جائے؟”
استاد تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر کہنے لگا:
“ہاں بیٹے، ایسا ایک شخص پیدا ہو چکا ہے, اس کا نام ہے سید ابو الاعلیٰ مودودی۔”
جس نے دین اسلام کو صرف عبادات تک محدود نہ رہنے دیا، بلکہ اسے ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ مولانا مودودی وہ مردِ حق تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی قلم، فکر اور جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے وقف کر دی۔
25 ستمبر 1903 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے اس شخص نے رسمی تعلیم تو مکمل نہیں کی، لیکن خود مطالعے اور غور و فکر کے ذریعے ایسا علمی مقام حاصل کیا کہ بڑے بڑے علما بھی حیران رہ گئے،عربی، فارسی، اردو اور انگریزی پر عبور، قرآن و حدیث پر گہری نظر، اور زمانے کے تقاضوں کا بھرپور شعور،یہ سب چیزیں ان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔
ان کے قلم سے نکلنے والی تحریریں دلوں کو جھنجھوڑ دیتی تھیں۔ انہوں نے “ترجمان القرآن” کے ذریعے دین کی سچائی عوام تک پہنچائی۔ ان کی تفسیر “تفہیم القرآن” آج بھی لاکھوں گھروں میں پڑھی جاتی ہے اور دلوں میں ایمان جگاتی ہے۔
مولانا مودودی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو ایک متحرک، مکمل، اور زندہ نظام کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اسلام کو ایک سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی نظام کے طور پر سمجھایا اور اسی نظریے کی بنیاد پر 1941 میں جماعت اسلامی قائم کی۔
جب دنیا مغرب کے فتنوں کی طرف جھک رہی تھی، جب سیکولرزم اور لبرل ازم کے نعرے مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کر رہے تھے، تب مولانا مودودی ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ قید و بند کی صعوبتیں، مقدمے، فتوے،کچھ بھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکا۔
ان کی فکر نے صرف برصغیر نہیں، بلکہ مصر، ترکی، انڈونیشیا، حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ تک کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ان کی کتابیں آج بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں چراغِ راہ بنی ہوئی ہیں۔
11 مئی 1953
جب قادیانی مسئلہ کی کتاب نتیجہ لکھنے کی پاداش میں فوجی عدالت نے ختمِ نبوت کے مجاہد، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو موت کی سزا سنائی
تو ان کے تاریخی الفاظ تھے
“زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں۔
میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔
میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کی سوچ، ان کا نظریہ، اور ان کی جدوجہد آج بھی زندہ ہے۔”22 ستمبر 1979