جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آج سپریم کورٹ کےآئینی بنچ نےطلبہ یونین کی بحالی کے معاملے پر سماعت کی۔ اس سماعت میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی سے طلبا کودرپیش مسائل پر بحث کی گئی۔ مؤقف اپنایا گیا کہ طلبہ یونین کا مطلب سیاست نہیں بلکہ طلبا کی فلاح و بہبود ہے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق آج سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سےطلبہ یونین کی بحالی کے معاملے پر سماعت کی گئی، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ طلبا یونین پر پابندی کب اور کس مقصد کی بنا پر لگائی گئی۔
دوسری جانب سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل کا کہناتھا کہ سیاست اب بار کے الیکشن میں بھی آگئی ہے،سیاسی پارٹیوں کی جانب سےتعلیمی اداروں میں سیاسی ونگز بنا لیے گئےہیں۔
جسٹس حسن اظہر کاکہناتھاکہ حالیہ کراچی یونیورسٹی میں ہوئے تشدد کی بڑی وجہ طلبا یونین ہے۔طلبہ یونین کا مقصد طلبہ کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے نہ کہ ان سے سیاست کو چمکایا جائے۔عدالت کی جانب سے طلبا یونین کی بحالی کے معاملےپر وفاق و متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ طلبا یونین پرلگی پابندی کو 32 برس بیت گئے ہیں، متعدد بار طلبا اور سیاست دانوں کی جانب سے کوششیں کی گئیں کہ طلبا یونین پر لگی پابندی کو ختم کیا جاسکے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں طلبا یونین کا وجود قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے، قیامِ پاکستان کے لیے آل انڈیا مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن نے طلباء کو متحرک کیا اور آزادی کے لیے اپنا حقیقی کردار ادا کیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد طلباء یونین کافی متحرک رہی، 1960 میں ایوب خان کے آمرانہ دور کے خلاف طلباء یونین کی طرف سے احتجاج کیے گئے ، جنھوں نے ایوب خان کی نااہلی میں اہم کردار اداکیا۔
طلبا یونین کی جانب سے ہر دور میں مزاحمت ہوئی، یہی وجہ تھی کہ 1984 میں طلبا کی حقوق کے خلاف تحریک سے تنگ آکر جنرل ضیاءالحق نے پابندی لگا دی۔
اس کے بعد 1989 میں محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ وزیرِاعظم بنیں تو طلبا یونین پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ، لیکن سپریم کورٹ نے 1993 میں اس پر دوبارہ پابندی عائد کر دی ۔
طلبا سیاست نے ہمیشہ سیاسی رہنماؤں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کی کئی معروف شخصیات نے اپنی زندگی کا آغاز طلبا یونین اور ان سرگرمیوں کے ذریعے کیا، جن میں احسن اقبال (پاکستان مسلم لیگ ن) ، لیاقت بلوچ ( جماعت اسلامی) جاوید ہاشمی (پاکستان مسلم لیگ ن) فیصل میر ( پاکستان پیپلز پارٹی ) اور خوشحال خان کاکڑ (چیئرمین، پی کے این اے پی) شامل ہیں۔
جامعہ پنجاب لاہورطلبہ یونین کے سابق صدر لیاقت بلوچ کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ طلبایونین طالب علموں کا جمہوری حق ہے ۔ اگر مریم نواز تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ کے ساتھ سیاسی خطاب کر سکتی ہیں تو ملک کے مستقبل کا حق بنتا ہے کہ ان کے جمہوری حقوق فعال کیے جائیں۔
طلبا یونین کے فوائد بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر نوجوان نسل کو طالب علمی میں سیاست میں موقع دیا جائے توان کی تربیت ہو گی اور مستقبل میں وہ قابل سیاست دان بنیں گے جو ملک کی رہنمائی کریں گے۔
طلبا یونین کے سابق صدرکا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کسی بھی سیاسی پارٹی کی پابند نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ یونین کی جہاں ضرورت ہو اصلاح کی جائے۔یہ طلبا کا جمہوری حق ہے کہ وہ ایک نظریےکی روشنی میں اپنے حق کےلیے کھڑے ہوں۔
دوسری جانب طلبا یونین پر پابندی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے حق میں آواز اٹھانے والے عمار جان کاپاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طلبہ یونینز کسی بھی ملک میں طالب علموں کا بنیادی حق ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں آمر جنرل ضیاء الحق نے اس حق کو ہمیشہ کے لیے نوجوان نسل سے چھین لیا ۔
جامعہ پنجاب لاہورکے ایک اورطالب علم محمد شعیب کا پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طالب علموں کوسیاست میں شامل ہونا چاہیے تاکہ روایتی اور نسل در نسل حکمرانوں سے ملک کو نجات ملے۔
یاد رہے کہ طلباء یونین پر پابندی سے قبل جامعات اور کالجوں میں یونین کی صدارت کے لیےالیکشن کرائے جاتے تھے، مگر 1889 میں جنرل ضیاء الحق نے طلبا یونین پر پابندی عائد کر دی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب طلبا یونین پر عائد پابندی ہٹائی جائے گی اور اس کا مثبت یا کہ منفی اثر پڑتا ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا