Follw Us on:

مودی کی پالیسیوں پر تنقید، انڈیا نے خاتون پروفیسر کی شہریت منسوخ کر دی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Natasha.

انڈین حکومت ایک جانب دوسرے ملکوں کو اپنا موقف بتانے کے لیے بھاری خراج پر پارلیمانی وفود بھیج رہی ہے جب کہ دوسری جانب اپنے اوورسیز شہریوں کی شہریت مودی پر تنقید کی پاداش میں کینسل کر رہی ہے۔
اس سلسلے کا تازہ شکار برطانیہ کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کی پروفیسر نتاشا کول بنی ہیں۔

انہوں نے 18 مئی کو سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا کہ آج جب میں گھر پہنچی تو مجھے اپنی اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا کی منسوخی کا نوٹس ملا۔ یہ ایک انتقامی اور غیر منصفانہ قدم ہے جو انڈیا میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف اور جمہوریت دشمن پالیسیوں کا حصہ ہے۔ مجھے یہ سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ میں نے ان پالیسیوں پر تحقیق اور علمی کام کیا ہے۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انڈیا میں نفرت کے خلاف بولنے پر ماہرینِ تعلیم کو گرفتار کرنا صرف ایک داخلی دباؤ نہیں، بلکہ یہ ان غیرملکی ماہرین تعلیم کے لیے بھی ایک سخت پیغام ہے جن کی جڑیں انڈیا سے جڑی ہوئی ہیں، ان کے لیے ملک اور خاندان تک رسائی محدود یا ختم کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے

اصل مقصد ایک واضح پیغام دینا ہے ہمیں اندر سے چیلنج کرنے کی ہمت نہ کرو، اور نہ ہی بیرونی دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرو کہ یہاں درپردہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ایک قسم کی دھمکی ہے، جو تجزیے، سوال، اور اختلافِ رائے کو جرم بنانے کی کوشش ہے۔

Indian professor

انہوں نے پہلے بھی اسی سال 24 فروری کو لکھا کہ مجھے صرف جمہوری اور آئینی اقدار پر بات کرنے کی پاداش میں انڈیا میں داخلے سے روک دیا گیا۔ مجھے کرناٹک کی حکومت، جو کانگریس کے زیرِ انتظام ہے، نے ایک کانفرنس میں معزز مندوب کے طور پر مدعو کیا تھا، لیکن انڈیا کی مرکزی حکومت نے مجھے ملک میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ میری تمام دستاویزات بالکل درست اور کارآمد تھیں، برطانیہ کا پاسپورٹ اور او سی آئی کارڈ۔

اس کے علاوہ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر علی خان محمود آباد، جو اشوکا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، کو “آپریشن سندور” سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی بی جے پی یووا مورچہ کے ایک رہنما کی شکایت پر ہوئی۔ علی خان کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹس بدسلوکی پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان پر ناحق سنسرشپ کی جا رہی ہے۔

پولیس کے مطابق انہیں دہلی سے حراست میں لیا گیا ہے۔ اشوکا یونیورسٹی نے تصدیق کی ہے کہ وہ پولیس سے رابطے میں ہے اور مکمل تعاون کر رہی ہے۔

یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب ہریانہ کی خواتین کمیشن نے ان کے ریمارکس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی باتوں سے خواتین افسران کی توہین ہوئی اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا ملی۔

اپنے سوشل میڈیا بیان میں علی خان نے کہا کہ ان کے ریمارکس کو غلط سمجھا گیا ہے اور خواتین کمیشن کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی قانونی اختیار نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی بطور نمائندہ خواتین افسران تقرری قابلِ تعریف ہے، اور ان کی نیت کسی بھی طور پر توہین یا نفرت پھیلانے کی نہیں تھی۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے ان دائیں بازو کے افراد کی بھی تعریف کی جنہوں نے خواتین افسران کی حمایت کی، اور انہیں دعوت دی کہ وہ عام مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا رویہ اپنائیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر تعصب اور ظلم کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ان کے تمام تبصرے شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی جانوں کے تحفظ کے بارے میں تھے، نہ کہ کسی کے خلاف۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس