Follw Us on:

امریکا کی نئی سمت: اسرائیل کی یتیمی اور خلیجی ترجیحات

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Blog

اب جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کا کامیاب اور غیر معمولی اور اسرائیل سے غیر مربوط دورہ مکمل کر چکے ہیں، تو ایک بات اب زیادہ وضاحت سے کہی جا سکتی ہے کہ غیرقانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی موجودہ حکومت، جس کی قیادت نیتن یاہو کر رہے ہیں، اب امریکہ کی اتحادی نہیں رہی۔

ٹرمپ کے اس دورے میں ایک بات نمایاں طور پر غیر حاضر رہی جس میں اسرائیل کا ذکر، نیتن یاہو سے ملاقات، یا کوئی علامتی خیرسگالی کا پیغام۔ یہ خاموشی محض سفارتی چال نہیں تھی، بلکہ یہ صیہونی ریاست کو ایک اہم پیغام تھا، واشنگٹن اب اس حقیقت کو تسلیم کر رہا  ہے کہ نیتن یاہو نہ صرف امریکی مفادات کو نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ ان کے خلاف سرگرم ہو چکے ہیں۔

امریکی معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں توماس فریڈمین نے ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ اب میں پہلے سے زیادہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ  صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خلیجی ریاستوں کے دورے کے دوران صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی صدر نے ایک بنیادی حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ صیہونی حکومت ایسے انداز میں عمل کر رہی ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے بنیادی مفادات کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ نیتن یاہو اب ہمارا دوست نہیں ہے۔”

یہ کہنا شاید سخت لگے، مگر حقیقت یہی ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے شدت پسند مذہبی گروہوں اور نسل پرست عناصر سے سمجھوتے کیے، وہ دو ریاستی حل کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے، اور اس نے بارہا ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو خطے میں امریکی مفاہمتی کوششوں کو سبوتاژ کرتی ہیں۔

انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں سے نیتن یاہو کو یہ پیغام دیا ہے کہ خطے کے مستقبل کے فیصلے اب اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں ہوں گے اور یہ صرف پیغام نہیں ہے بلکہ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ مذاکرات کی منظوری، یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق، اور سعودی عرب کے ساتھ سول نیوکلیئر پروگرام پر بات چیت شامل ہے یہ فیصلےت اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ امریکہ اب اپنے علاقائی تعلقات کو صرف اسرائیل کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔

امریکہ کے خلیجی ریاستوں سے براہ راست اور دوطرفہ تعلقات، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک کو نئے شراکت داروں کے طور پر تسلیم کرنا، اور غیرقانونی صیہونی ریاست کو اس صف سے وقتی طور پر باہر رکھنا یہ سب دراصل واشنگٹن کے بدلتے ہوئے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔

امریکہ اور صیہونی ریاست کے درمیان دوریوں کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نہتے شہریوں پر مسلسل وحشیانہ بمباری، انسانی حقوق کی سنگین پامالی، اور امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ایسے عوامل ہیں جنہوں نے واشنگٹن کے کئی فیصلہ سازوں کو نیتن یاہو حکومت سے دور ہونے پر مجبور کیا ہے۔

امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کا زاویہ اب یہ اشارہ دے رہا ہے کہ “ہم صیہونی ریاست اسرائیل کی بقا کے حامی ہیں، لیکن ہم نیتن یاہو کی امریکہ سمیت انسان دشمن پالیسیوں کے وکیل نہیں۔” ٹرمپ کے دورے نے یہ پیغام دو ٹوک انداز میں ظاہر کردیا ہے کہ امریکہ کی خطے میں قیادت اب اسرائیل کے ذریعہ نہیں، بلکہ اپنے مفادات کے مطابق ہو گی۔ نیتن یاہو  اب امریکہ کا وہ وہ “قریبی اتحادی” نہیں رہا جس پر وہ  آنکھ بند کر کے بھروسہ کرے۔

فریڈمین نے لکھا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم  امریکہ میں پالیسی ساز، تجزیہ کار، اور عام شہری یہ تلخ حقیقت تسلیم کریں کہ نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی حکومت نہ صرف خطے میں امن کے خلاف کام کر رہی ہے بلکہ ہمارے قومی مفادات سے بھی متصادم ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ یہ رائے صرف امریکی دانشوروں اور پالیسی سازوں ہی کی نہیں ہے بلکہ  صیہونی ریاست کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے متعدد تجزیاتی اور رائے پر مبنی مضامین میں بھی یہ موضوع زیر بحث رہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جو قریبی تعلقات پہلے دیکھنے کو ملتے تھے، وہ اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ 

ان اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حالیہ پالیسیوں میں کئی حیران کن اقدامات شامل ہیں جن پر اسرائیلی حکومت کو اعتماد میں لینا تو دور کی بات خبر بھی نہیں ہونے دی گئی۔

ان تحریروں کا مشترکہ تاثر یہ ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حیثیت، خصوصاً امریکی انتظامیہ کے تناظر میں، نمایاں طور پر کمزور ہو گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا کی توجہ اب سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک پر مرکوز ہو چکی ہے، جو نہ صرف خطے میں اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں بلکہ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کے نئے محور بھی بن چکے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس صورت حال کا ذمہ دار براہ راست نیتن یاہو کو قرار دیتی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا اور یہ سب انہوں نے اپنے دائیں بازو کے اتحادیوں، بالخصوص وزیر خزانہ سموتریچ اور قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، کی انتہاپسند شرائط کی بنیاد پر کیا۔

معروف اخبار ہیرٹس  کے معروف عسکری تجزیہ کار عاموس ہرئیل نے لکھا کہ امریکا اب اپنی مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دے رہا ہے، اور یہ تبدیلی عسکری بالادستی سے ہٹ کر معاشی تعاون اور تنازعات کے سیاسی حل کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔ ہرئیل کے مطابق، ٹرمپ کی موجودہ پالیسی ایک عملی، تجارتی سوچ اور طویل المدتی جنگوں سے گریز کی مظہر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ علاقائی قوتوں، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے، پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ پر جاری جنگ ختم کرنے کی کسی نہ کسی شکل کو قبول کریں — لیکن اسرائیل اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے بقول، اسرائیل کا موجودہ کردار ان تمام علاقائی تبدیلیوں میں محض ایک ضمنی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

اسی موضوع پر یدیعوت احرونوت کے ممتاز سیاسی تجزیہ نگار ناحوم برنیع نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ٹرمپ کی خلیجی ریاستوں میں حالیہ سفارت کاری نے یہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے کہ امریکی پالیسی میں مرکزِ ثقل اسرائیل سے ہٹ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا: “اسرائیل اب اس بچے کی مانند ہے جسے گھر پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ وہ ریاست جسے کبھی واشنگٹن میں دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، اب اپنی مستحکم جمہوری حیثیت تک کھو چکی ہے۔”

دوسری جانب، اخبار اسرائیل ہیوم کے دفاعی تجزیہ کار یوآف لیمور نے لکھا کہ اسرائیل-امریکا کی شراکت داری، جو برسوں سے واشنگٹن کی علاقائی پالیسی کی بنیاد سمجھی جاتی تھی، اب اس ہفتے کے واقعات کے بعد پس منظر میں چلی گئی ہے۔ ان کے مطابق: “اگرچہ اس شراکت داری کو سرکاری طور پر ختم نہیں کیا گیا، لیکن واشنگٹن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اب صرف اپنی قومی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھے گا۔”

انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا عالمی سطح پر امیج بگڑ چکا ہے، اور کچھ مغربی دارالحکومتوں خصوصاً فرانس، اسپین، برطانیہ سمیت اٹلی ناروے اور آئرلینڈ  میں اسے ایک “تنہا ریاست” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جہاں ماضی میں سفارتی بات چیت ہوا کرتی تھی، وہاں اب اسرائیل پر سیاسی حملے کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیلی صحافت میں ابھرنے والی یہ آوازیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ تل ابیب کی روایتی حیثیت کو واشنگٹن میں چیلنج کیا جا رہا ہے، اور مشرق وسطیٰ میں نئے اتحاد ابھر رہے ہیں، جن کی بنیاد مفاہمت، معاشی تعاون، اور اسٹریٹجک توازن پر رکھی جا رہی ہے — نہ کہ صرف فوجی برتری اور غیر مشروط حمایت پر۔ ان تبدیلیوں کا بظاہر سب سے بڑا نقصان اسرائیل کو ہو رہا ہے، جسے اب نئے علاقائی اور بین الاقوامی منظرنامے میں اپنی جگہ دوبارہ تلاش کرنا ہو گی۔

اگرچہ یہ تجزیے اور آراء کسی حد تک خطے کی بدلتی سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں لیکن اس میں صیہونی ریاست کی جانب سے مبالغہ آرائی، خود فریبی اور برتری کے جذبے کی جھلک نمایاں ہے۔ ان تمام آراء کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات پر صرف اسرائیل کا حق ہے اور کوئی اور ملک، خاص طور پر عرب دنیا، اس رشتے میں حصہ دار نہیں ہو سکتا۔

ان خیالات میں یہ تصور موجود ہے کہ امریکہ کی خطے میں موجودگی اور مفادات کو صرف اسرائیل کی خاطر بروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ اس کی عسکری اور سیاسی بالادستی برقرار رہے۔ ان تجزیہ نگاروں کے نزدیک موجودہ بحران کا بنیادی سبب نیتن یاہو کی سیاسی حکمت عملی ہے گویا کہ اگر نیتن یاہو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے کسی معاہدے پر رضامند ہو جائیں، تو اسرائیل دوبارہ امریکہ کی مرکزی ترجیح بن جائے گا، اور “اپنی فطری حیثیت” حاصل کر لے گا۔

یہ تجزیے دراصل اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ بس صرف وزیرِاعظم کی پالیسی میں معمولی تبدیلی ہی کافی ہے، باقی اسرائیل کے تمام اقدامات ناقابل تنقید اور جائز ہیں۔

اس سیاسی تبدیلی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بیشتر اسرائیلی تجزیے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان عشروں پر محیط اسٹریٹیجک تعلقات کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ جیسا کہ معروف فلسطینی مؤرخ رشید الخالدی نے اپنی کتاب “وسطاء الخداع(کیسے امریکا نے مشرق وسطیٰ میں امن کو نقصان پہنچایا) میں وضاحت کی ہے، امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات محض وقتی یا جذباتی نہیں، بلکہ گہرے اسٹریٹیجک مفادات پر قائم ہیں۔

ان میں سب سے اہم مفاد مغربی دنیا کو توانائی کی بلا تعطل فراہمی اور خلیجی حکومتوں کی علاقائی خطرات کے خلاف حمایت شامل ہے۔ یعنی امریکہ اور سعودی عرب کا تعلق ہمیشہ سے ہی دو طرفہ مفادات کا حامل رہا ہے، اور اس میں کسی تیسرے ملک — حتیٰ کہ اسرائیل کے لیے خاص مراعات کی کوئی گنجائش نہیں۔

اسرائیلی تجزیہ کاروں کی رائے  اس وقت ایک ایسی سیاسی حقیقت سے ٹکرا رہے ہیں جسے اب صیہونی ریاست تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، اور غیرقانونی صیہونی ریاست اسرائیل اب امریکہ کا بلوآئند نہیں رہا ہے اور نا ہی اس کو اب وہ حمایت حاصل ہے جو اس کی ناجائز پیدائش کے بعد سے حاصل رہی تھی۔ امریکہ کی توجہ اب اُن ممالک کی جانب بڑھ رہی ہے جو خطے میں استحکام، اقتصادی شراکت داری اور مفاہمت کے لیے آمادہ ہیں اور جو اپنے رویے سے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ علاقائی امن کے لیے سنجیدہ ہیں۔

یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ غیر قانونی صیہونی ریاستواقعی خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے نہ صرف داخلی سیاسی رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی، بلکہ فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کا احترام بھی کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر، اسرائیل کی “تنہائی” صرف ایک سفارتی اصطلاح نہیں بلکہ ایک نئی حقیقت بن سکتی ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس