انسداد بدعنوانی عدالت نے 17 جنوری کو ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سابق وزیرِاعظم کو چودہ برس قید بامشقت جب کہ ان کی اہلیہ کو سات برس کی قید کی سزا سنائی۔کیس کا فیصلہ انسداد بدعنوانی کی عدالت کے
اڈیالہ جیل میں عارضی کمرہ عدالت میں کیس کا فیصلہ کیا گیا اور سابق وزیرِاعظم اور ان کی اہلیہ پربالترتیب 10 لاکھ اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں چھ ماہ مزید قید کی سزا کا بھی کہا گیا۔مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوئی۔
واضح رہے کہ واض وایہ مقدمہ ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم القادر ٹرسٹ سے متعلق تھا، جو 2018 میں سابق وزیرِاعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی زیرِسرپرستی میں قائم کیا گیا تھا۔

دوسری طرف القادر یونی ورسٹی پنجاب کے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوا میں واقع ہے جس کا رقبہ 458 کنال ہے۔ اس کے بانیوں میں عمران خان اور ان کی اہلیہ شامل ہیں۔ 2019 میں قائم ہونے والی ا س یونی ورسٹی کو عمران خان نےملک کو ریاستِ مدینہ بنانے کی جانب پہلا قدم قرار دیاتھا۔ روحانی تعلیمات اور جدید علوم کے ملاپ کو فروغ دینے کےلیے اس یونیورسٹی کو قائم کیا گیا تھا۔
القادر یونیورسٹی اسلام آباد سے تقریبا 85 کلومیٹر دور جی ٹی روڈ پر ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں تعمیر کی گئی ہے اور یہ یونیورسٹی پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے جس کے ارگرد کوئی باقاعدہ آبادی نہیں ۔
خیال رہے کہ یہ یونیورسٹی القادر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلتی ہے جس کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان ہیں جبکہ اُن کی بیوی بشری بی بی بورڈ آف ٹرسٹیز کی رُکن ہیں۔
دوسری جانب چند دنوں قبل وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی جانب سے دعویٰ کیا گیاکہ اس یونیورسٹی میں کوئی بھی طالبعلم زیر تعلیم نہیں ہے۔

غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں 200 سے زائد طلبا زیرِتعلیم ہیں، جن کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور وہ ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے آئے ہیں۔ ان طلبا میں سے 90 فیصد طلبا اور طالبات اسکالر شپ پر یعنی مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
القادر یونیورسٹی میں اسلامک سٹدیز اور مینیجمنٹ سٹدیز کے کورسز پڑھائے جاتےہیں۔ اس کے علاوہ یونی ورسٹی میں ایک ہاسٹل اور طلباء کی سہولت کے لیے کینٹین بھی موجود ہے۔
یاد رہے کہ القادر یونی ورسٹی کیس اس وقت سامنے آیا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ الزام لگایا کہ یونی ورسٹی کی زمین غیر قانونی طور پر دی گئی ہے۔ غیر ملکی ایجنسی نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے ضبط شدہ 190 ملین پاونڈ پاکستانی حکومت کو دے دیے، مگر دوسری جانب حکومت کے مطابق وہ روم ملک ریاض کو واپس کی گئی، جس کے بدلے میں یونی ورسٹی کی زمین القادر ٹرسٹ کے حوالے کی گئی۔

حکومتی عہدیداران کی جانب سے مؤقف اٹھایا گیا کہ یہ رقم پاکستانی خزانے میں جمع ہونی چاہیےتھی، جسے غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن کے جرمانے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب عمران خان اور ان کی پارٹی ممبران ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق القادر یونی ورسٹی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد طلباء کو جدید تعلیم سے روشناس کروانا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ کیس جھوٹے الزامات پر مبنی ہیں اور ان کو وجہ بناتے ہوئے میرے کردار کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ القادر یونی ورسٹی کی موجودہ دستاویزات میں کئی خامیاں موجو ہیں جو کرپشن ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق یہ معاملہ نہ صرف کرپشن بلکہ اعتماد کی خلاف ورزی کا بھی ہے، جہاں عوامی پیسے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیاہے۔

معزز عدالت نے ثبوتوں اور گواہوں کو سامنے رکھتے ہوئےسابق وزیرِاعظم کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جب کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔ اس کے ساتھ ساتھ القادر یونی ورسٹی کو بھی حکومتی تحویل میں لینے کے آرڈر بھی جاری کیے۔
اس عدالتی فیصلے کے آنے کے بعد ملک میں پہلے کی طرح ایک بار پھرعوامی رائے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ عمران خان کے حامیوں کی جانب سے عدالت کے اس فیصلے کو جمہوریت پر حملے کا نام دیا گیا، جب کہ مخالفین کی جانب سے اسے احتساب کا عمل کہا گیا۔
القادریونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم طلباء کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگوکرتےہوئے کہناتھا کہ ایسے فیصلے سن کر وہ اپنی تعلیم اور مستقبل کے بارے میں افسردہ ہو جاتے ہیں۔ محمد سعد نامی ایک طالب علم نے بات چیت کرتے ہوئےکہا کہ اسے اس یونی ورسٹی میں پڑھتے ہوئے تیسرا سال ہے اور اگر اب اس فیصلے کی وجہ سے اس کی تعلیم پر کوئی اثر پڑتا ہے تو یہ اس کے لیے بہت برا ثابت ہوگا۔یونیورسٹی کے طلبا عدالتی فیصلے پر کہ یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے پر بے یقینی کا اظہار کررہے ہیں۔