امریکی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس ایگزیکٹو آرڈر کو معطل کر دیا ہے، جس کے تحت محکمہ تعلیم کو بند کرنے کا منصوبہ تھا اور ساتھ ہی ادارے سے مارچ میں کی جانے والی اجتماعی برطرفیوں کے نتیجے میں نکالے گئے ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔
عالمی خبرارساں ادارے رائٹرز کے مطابق بوسٹن میں امریکی ڈسٹرکٹ جج میونگ جون نے ابتدائی حکمِ امتناعی جاری کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کو مارچ میں اعلان کردہ دو منصوبوں پر عملدرآمد سے روک دیا، جو کہ محکمہ تعلیم کو بتدریج تحلیل کرنے کی کوشش کا حصہ تھے۔ یہ حکم ریپبلکن صدر کی ایک اہم انتخابی وعدے پر پیش رفت میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
یہ حکم میساچوسٹس کے سمر ویل اور ایسٹ ہیمپٹن اسکول ڈسٹرکٹس، امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز اور دیگر تعلیمی اداروں کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں جاری کیا گیا۔
مدعیان نے مؤقف اختیار کیا کہ مارچ میں کی جانے والی برطرفیاں دراصل محکمہ تعلیم کو غیر قانونی طور پر بند کرنے کے مترادف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کے باعث محکمہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں رہا، جن میں خصوصی تعلیم کی معاونت، مالی امداد کی تقسیم اور شہری حقوق کے قوانین کا نفاذ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں :پاکستان میں کچھ ’بہت عظیم لوگ‘ رہتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
عدالتی حکم میں جج جون نے کہا کہ مدعیان نے ایک انتہائی تشویشناک تصویر پیش کی ہے کہ مالی بے یقینی اور تاخیر اہم معلومات تک رسائی میں رکاوٹ اور امریکا کے کمزور ترین طلبہ کے لیے بنیادی خدمات کے خاتمے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس پیمانے کی برطرفیاں غالباً محکمہ تعلیم کو مفلوج کر دیں گی۔
جج جون نے محکمہ تعلیم کو حکم دیا کہ وہ 11 مارچ کو اعلان کردہ برطرفیوں کے تحت نکالے گئے وفاقی ملازمین کو فوری طور پر بحال کرے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان برطرفیوں کا مقصد ادارے کی بندش نہیں بلکہ کارکردگی میں بہتری ہے۔ حکومت کے مطابق صدر ٹرمپ محکمہ تعلیم کو بند کرنے کے حامی ہیں، لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا اقدام صرف کانگریس کی منظوری سے ممکن ہے۔
انتظامیہ نے مزید کہا کہ ادارے کی تنظیمِ نو کے دوران کچھ خدمات متاثر ہو سکتی ہیں، لیکن حکومت اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے پرعزم ہے۔