مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ترقی کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ اب روزمرہ کی زندگی کا کوئی بھی پہلو اس سے محفوظ نہیں رہا۔ تعلیم، طب، صنعت، عدلیہ، سیکیورٹی اور خاص طور پر صحافت جیسے شعبے تیزی سے بدلتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے زیر اثر آ رہے ہیں۔
ایک طرف جہاں مصنوعی ذہانت نے انسانی زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں دوسری جانب یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ کیا یہ ترقی انسانی محنت کی جگہ لے کر نوکریوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟ خاص طور پر صحافت جیسے حساس اور تحقیقی شعبے میں جہاں سچائی، تنقید اور انسانی تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے، کیا ایک مشین یا پروگرام اس خلا کو پُر کر سکتا ہے?
اسلام آباد کے ایک میڈیا انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم صحافت کے طالبعلم علی اکبر اس معاملے پر خاصی فکر کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم روز سنتے ہیں AI نیوز آرٹیکلز لکھ سکتی ہے، تصویریں بنا سکتی ہے، یہاں تک کہ ویڈیوز میں رپورٹرز کی جگہ ورچوئل اینکرز استعمال ہو رہے ہیں۔ ایسے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل مشینوں کے رحم و کرم پر ہے۔
علی کی بات صرف ایک طالبعلم کا خدشہ نہیں بلکہ اس وقت دنیا بھر میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے درمیان بحث کا ایک مرکزی نقطہ بھی ہے۔

گزشتہ سال معروف عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز نے ایک تجرباتی اقدام کے تحت کچھ خبروں کی رپورٹنگ مکمل طور پر AI کے ذریعے کی۔ رپورٹس کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبریں رفتار کے لحاظ سے تو بہت تیز تھیں مگر ان میں انسانی احساس، نکتہ نظر اور تنقیدی زاویہ ناپید تھا۔
اس تجربے سے ایک اہم سوال نے جنم لیا کہ کیا صرف معلومات کی ترسیل کافی ہے یا سچائی، سیاق و سباق اور انسانی فہم بھی اتنے ہی ضروری ہیں؟
لاہور میں مقیم ایک تجربہ کار صحافی انعم شاہین، جو کہ ایک قومی روزنامے میں بطور فیچر رائٹر کام کرتی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے خود کئی دفعہ اے آئی ٹولز استعمال کیے ہیں، جیسے کہ ChatGPT یا Grammarly، لیکن ان سے صرف مدد لی جا سکتی ہے، مکمل تحریر یا رپورٹنگ ان کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ خبر کی تحقیق، متاثرہ فریق سے گفتگو، سوالات کی ترتیب اور مخصوص لہجے کی ادائیگی یہ سب ابھی بھی انسان ہی بہتر کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو دشمن سمجھنے کے بجائے اسے ایک ہتھیار کے طور پر دیکھنا چاہیے، جو صحافیوں کو زیادہ بہتر اور منظم بنا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ تمام رائے دہندگان اس بات سے متفق نہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ٹیکنالوجی ایکسپرٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ رضوان خان کا کہنا ہے کہ صحافت کا موجودہ ماڈل خود تبدیل ہو رہا ہے اور مصنوعی ذہانت اس تبدیلی کا فطری حصہ ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر خبریں ویڈیوز کی شکل میں گردش کر رہی ہیں، لوگ بریکنگ نیوز اب موبائل نوٹیفیکیشن سے حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر AI رپورٹرز فوری اور درست خبریں فراہم کریں تو صارفین کو فرق نہیں پڑتا کہ یہ خبر کس نے لکھی۔ انہیں صرف مواد، رفتار اور درستگی سے غرض ہے۔
خیال رہے کہ یہ مسئلہ صرف صحافت تک محدود نہیں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں نوکریاں آنے والے برسوں میں AI کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
عالمی اقتصادی فورم کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں تقریباً 85 ملین نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں، جب کہ تقریباً 97 ملین نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، جن کے لیے مختلف مہارتیں درکار ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، وہاں AI کی آمد ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے، اگر اس کے لیے بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی۔
دوسری جانب پاکستان میں ابھی تک AI کی تعلیم اور مہارت عام نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جس کے ذریعے نوجوانوں کو AI ٹولز کے استعمال اور اس سے جڑی مہارتیں سکھائی جائیں۔ حالانکہ کئی نجی ادارے اور اسٹارٹ اپس اپنی سطح پر تربیت فراہم کر رہے ہیں، مگر یہ اقدامات کافی نہیں۔
اس بدلتے منظرنامے میں امید کی کرن یہ ہے کہ انسان میں وہ فطری تخلیقیت، ہمدردی، تنقید اور اخلاقی شعور موجود ہے، جو کسی بھی مشین سے بہتر ہے۔

اے آئی خود تخلیق نہیں کر سکتا، وہ صرف پہلے سے موجود ڈیٹا پر مبنی کام کرتا ہے۔ جب تک صحافت میں سچائی کی جستجو، مظلوم کی آواز بننے کی خواہش اور طاقت کے سامنے سوال اٹھانے کی جرأت باقی ہے، تب تک انسانی صحافت کا وجود بھی باقی رہے گا۔
لازمی پڑھیں: صارفین کا ڈیجیٹل کرنسی پر بڑھتا اعتماد: بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ 5 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئی
یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ مصنوعی ذہانت صحافت اور نوکریوں کے لیے خطرہ ضرور بن سکتی ہے، لیکن اگر انسان خود کو بدلتے وقت کے مطابق ڈھالے، نئی مہارتیں سیکھے اور AI کو بطور مددگار استعمال کرے، تو یہ خطرہ ایک نئے موقع میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی جائے گی، ویسے ویسے انسان کی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی جائے گی۔