Follw Us on:

انڈیا: ‘بھتہ نہ دینے پر’ انتہا پسند ہندوؤں نے چار مسلمانوں کو ادھ موا کرکے ٹرک جلا ڈالا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
India .
چار مسلمان افراد کو انتہا پسند ہندوؤں نے 'بھتہ نہ دینے پر' شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ (فوٹو: ایکس)

اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ میں ایک افسوسناک واقعے میں چار مسلمان افراد کو انتہا پسند ہندوؤں نے ‘بھتہ نہ دینے پر’ شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ادھ موا کرکے ترک جلا ڈالا۔

انڈین صحافی محمد زبیر نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ واقعہ ہفتے کے روز اس وقت پیش آیا، جب اکھیل بھارتیہ ہندو سینا کے مبینہ ‘گاؤ رکشکوں’ نے ان افراد کو اس شبہے میں روکا کہ وہ گائے کا گوشت لے جا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ‘گاؤ رکشکوں’ نے نہ صرف گاڑی کو زبردستی روکا بلکہ گاڑی میں سوار افراد کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے گاڑی کو نذر آتش کر دیا، جس سے وہ مکمل طور پر خاکستر ہو گئی۔

واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جن میں زخمی افراد کو نیم بے ہوشی کی حالت میں زمین پر تڑپتے دیکھا جا سکتا ہے۔

واقعے کے بعد حیرت انگیز طور پر انہی ‘گاؤ رکشکوں’ نے پولیس کے پاس گاڑی میں گوشت لے جانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔ پولیس نے متاثرین کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا اور گوشت کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے روانہ کر دیے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا وہ واقعی گائے کا گوشت تھا یا نہیں۔

سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے رہنما اور متاثرین میں سے ایک کے رشتہ دار نے واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ خود کو “گاؤ رکشک” کہنے والے یہ افراد اکثر رجسٹرڈ فیکٹریوں سے بھینس کے گوشت لے جانے والی گاڑیوں کو روکتے ہیں اور زبردستی پیسے وصول کرتے ہیں۔ اگر کوئی پیسے دینے سے انکار کرے تو یہ لوگ تشدد پر اُتر آتے ہیں اور فساد برپا کرتے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایس پی رہنما نے واقعے کو منظم بھتہ خوری قرار دیا ہے جس کے تحت مذہب کا لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

مزید براں، محمد زبیر کی جانب سے شیئر کی گئی ایف آئی آر اور رسید کی تفصیلات نے واقعے کی نوعیت کو واضح کر دیا ہے۔ ایف آئی آر میں درج گاڑی کا نمبر وہی ہے جو رسید پر درج ہے، اور رسید میں گوشت کی نوعیت “Buffalo bone in meat” یعنی بھینس کا ہڈی سمیت گوشت درج ہے۔ یہ گوشت علی گڑھ کی رجسٹرڈ کمپنی “Al-Ammar Frozen Foods Exports Pvt. Ltd” سے منسلک ہے، جو حکومت سے منظور شدہ بھینس کے گوشت کی برآمد اور پروسیسنگ کمپنی ہے۔

رسید اور سرٹیفکیٹ کی تصاویر کے مطابق نہ صرف گوشت قانونی طور پر لے جایا جا رہا تھا بلکہ اس کی پروسیسنگ اور نقل و حمل تمام قانونی تقاضوں کے مطابق تھی۔

واضح رہے کہ مقامی شرپسند عناصر نے ’گاؤ رکشا‘ کے نام پر گوشت کے تاجروں سے بھتہ وصولی کا دھندہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ گروہ، جو خود کو ’گاؤ رکشک‘ قرار دیتے ہیں، سڑکوں پر گوشت لے جانے والی گاڑیوں کو روک کر اُن تاجروں سے ’چوتھ‘ یعنی زبردستی مالی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اگر کوئی تاجر ان کے ناجائز مطالبات مان لے، تو اُسے خاموشی سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر انکار کیا جائے، تو وہ فوری طور پر ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور تاجر پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ یہ تمام صورتِ حال اس وقت کھل کر سامنے آئی جب علی گڑھ میں چار مسلم گوشت تاجروں کو انہی گاؤ رکشکوں نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی گاڑی کو آگ لگا دی۔

دھیان رہے کہ وی ایچ پی (وشو ہندو پریشد) کے رہنما رام کمار آریہ، بی جے پی رہنما ارجن سنگھ، شِوم ہندو اور دیگر کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ان پر گوشت سپلائرز پر حملے، نقدی لوٹنے اور 50 ہزار روپے بھتہ طلب کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اعلیٰ قیادت یا ریاستی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی واضح مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب ‘گاؤ رکشا’ کے نام پر مسلمانوں یا دلتوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ پچھلے چند برسوں میں کئی ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں نہ صرف تشدد بلکہ اموات تک واقع ہو چکی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بارہا انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس