Follw Us on:

بلوچستان میں بھارتی سازشیں اور وکی لیکس کے تازہ انکشافات

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی نئی لہر اٹھتی ہے، خاص طور پر بلوچستان میں تو ایک سوال ذہن میں فوراً آتا ہے کہ آخر اس خونریزی کے پیچھے کون ہے؟ اگر اس سوال کا جواب کسی تجزیے، مشاہدے یا قیاس پر چھوڑا جائے تو شاید کسی کو بھی یقین نہ آئے لیکن جب عالمی سطح کی رپورٹس، وکی لیکس جیسے معتبر ذرائع اور خود مغربی سفارتکاروں کے الفاظ اس حقیقت کی تصدیق کریں کہ بھارت گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں ایک خفیہ اور منظم دہشت گردانہ مہم چلا رہا ہے تو معاملہ محض الزام سے نکل کر ناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے۔

وکی لیکس کی حالیہ رپورٹ میں جو امریکی سفارتی کیبلز منظر عام پر آئی ہیں، ان میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں موجود امریکی حکام اس امر سے پوری طرح واقف تھے کہ بھارت، افغانستان کے راستے بلوچستان میں نہ صرف مداخلت کر رہا ہے بلکہ عسکریت پسندوں کو مالی، لاجسٹک اور تربیتی معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔ سفارتی سطح پر لکھی گئی ان کیبلز میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی قونصل خانے دراصل خفیہ ایجنسی ’را‘ کے فیلڈ دفاتر کے طور پر کام کر رہے تھے اور ان کا اصل ہدف پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا تھا۔

بلوچستان، جو کہ جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل خطہ ہے، طویل عرصے سے دشمنوں کی نظریں اس پر مرکوز رہی ہیں۔ یہاں کے وسائل، بندرگاہیں اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس خطے میں بدامنی کو ہوا دینے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی بھارت کی خفیہ مداخلتوں کے شواہد پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں کے سامنے رکھے گئے لیکن مغربی طاقتوں کی منافقانہ خاموشی اور مفادات کی چادر میں لپٹے اصولوں نے ہمیشہ بھارت کو کھلی چھوٹ دی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے اس خفیہ مہم کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ ایک حاضر سروس بھارتی نیوی افسر کا پاکستان کی سرزمین پر جاسوسی اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ کلبھوشن کا اعترافی بیان، جسے ویڈیو اور تحریری صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو اسلحہ، پیسہ، تربیت اور سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا نے بھارت کا اصل چہرہ براہ راست ایک جاسوس کی زبانی سنا مگر پھر بھی عالمی برادری کی زبان پر تالے پڑے رہے۔ وکی لیکس کی حالیہ رپورٹس اس وقت سامنے آئی ہیں جب مودی سرکار پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئی ہے اورہندوستانی دعوے اور بھڑکیں پاکستانی شاہینوں نے خاک میں ملا دیے جبکہ پاک فوج نے دشمن کی جارحیت کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اس کے چودہ طبق روشن کر دیے مگر اس کے خفیہ عزائم اور بغل میں چھپی چھریاں یہ بتاتی ہیں کہ وہ صرف اپنے مفادات کے لیے خطے کو آگ میں جھونکنے پر آمادہ ہے۔ سفارتی کیبلز میں ایک خاص بات یہ بھی سامنے آئی کہ امریکی حکام نے بھارت کی سرگرمیوں پر اگرچہ نجی طور پر خدشات ظاہر کیے لیکن باضابطہ طور پر خاموشی اختیار کی تاکہ بھارت کو چین کے خلاف ایک تزویراتی اتحادی کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یہ وہی دوہرا معیار ہے جو مسلم دنیا کو بار بار نقصان پہنچاتا آیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی کا اصل مقصد نہ تو انسانی ترقی تھا اور نہ ہی علاقائی امن بلکہ اس کی آڑ میں وہ پاکستان کے خلاف ایک پراکسی وار چلا رہا تھا۔

قندھار، جلال آباد اور ہرات میں موجود بھارتی قونصل خانے درحقیقت بلوچستان میں دہشت گردوں کو ہینڈل کرنے کے آپریشنل بیس تھے۔ کئی بار پاکستانی خفیہ اداروں نے ان قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان دشمن عناصر کی مالی معاونت،تربیت اور آمد و رفت کے شواہد جمع کیے مگر یہ شواہد بھی عالمی قوتوں کو خواب غفلت سے جگانے میں ناکام رہے۔ بلوچستان میں حالات کو خراب کرنے کے لیے بھارت نے صرف عسکریت پسندوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا۔ بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے، ریاست سے دور کرنے اور نفرت پھیلانے کے لیے جعلی خبروں، ویڈیوز اور پروپیگنڈا کے ذریعے ایک ذہنی جنگ چھیڑی گئی۔ کئی بھارتی ایجنٹس نے خود کو انسانی حقوق کے کارکن، صحافی یا سکالر ظاہر کر کے بیرون ملک بلوچ ڈائسپورا کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے کئی کے تعلقات بعد میں ’را‘ سے ثابت بھی ہوئے مگر مغربی میڈیا کی بھارت نوازی نے ان سچائیوں کو کبھی سرخیوں میں جگہ نہ دی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی تنظیمیں اس واضح مداخلت اور دہشت گردی پر خاموش کیوں ہیں؟ جب پاکستان میں کوئی چھوٹا واقعہ بھی ہو جائے تو انسانی حقوق کے نام پر واویلا مچ جاتا ہے مگر بھارت جیسے بڑے ملک کی منظم مداخلت اور قتل و غارت گری پر مجرمانہ خاموشی کیوں؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ اسے چین کے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے؟ پاکستان نے متعدد بار سفارتی سطح پر ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں جمع کرائی گئی رپورٹس،ڈوزیئرز،کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان اور اب وکی لیکس کی سفارتی کیبلز،یہ سب مل کر ایک ناقابل تردید کیس بن چکے ہیں۔۔۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان نہ صرف عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو مزید موثر بنائے بلکہ دنیا کو یہ باور کرائے کہ بلوچستان میں بدامنی کوئی قدرتی یا داخلی معاملہ نہیں بلکہ ایک منظم اور بیرونی منصوبہ بند مداخلت کا نتیجہ ہے۔ اب یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کا سوال ہے۔ اگر بھارت کو اس دہشت گردی سے باز نہ رکھا گیا تو یہ شعلے پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔۔۔پاکستان کے صبر کو کمزوری سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہماری افواج، خفیہ ادارے اور عوام اس وقت بھی چوکس ہیں اور ہر چالاکی کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت کی یہ چال کہ وہ بلوچستان کو کشمیری مزاحمت کا ’جواب‘ بنا دے،ایک انتہائی مکروہ اور خطرناک حکمت عملی ہے، جسے اگر ابھی نہ روکا گیا تو آنے والے وقت میں یہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تباہی کا پیغام بن سکتی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ عالمی ضمیر جاگے۔ سفارتی کیبلز، اعترافی بیانات، گرفتارجاسوس، سب کچھ ثبوت بن چکے ہیں۔ اب مزید خاموشی، مزید تماش بینی اور مزید مصلحت کی گنجائش نہیں۔ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانا پاکستان کا نہیں، ہر اُس قوم کا فرض ہے جو دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور اس دل پر حملہ دراصل پاکستان کی روح پر حملہ ہے۔ بھارت کے ان ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانے کے لیے صرف بیانات نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس جنگ میں تنہا نہیں بلکہ سچائی،حق اور انصاف اس کے ساتھ ہے اور وہ دن دور نہیں جب بھارت کی یہ بزدلانہ چالیں خاک میں ملیں گی اور بلوچستان امن،ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس