ذرا تصور کریں کہ کسی جنگ کے دوران ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو جائے، جس میں ایک نامور جرنیل جنگ بندی کا اعلان کر دے۔ لیکن چند گھنٹوں بعد پتہ چلے کہ وہ ویڈیو ہی جعلی تھی۔ نہ ایسی کوئی تقریر ہوئی اور نہ ہی کوئی جنگ بندی ۔
بالکل ایسی ہی صورتِ حال آج دنیا بھر میں کئی محاذوں پر سامنے آ رہی ہے، جہاں ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز ایک نئے قسم کے ‘ڈیجیٹل ہتھیار’ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایکسپرٹ سید اسد نعیم نے کہا کہ “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نے جنگی حکمتِ عملی کو بدل دیا ہے۔ اب نفسیاتی جنگ اور غلط معلومات کا استعمال زیادہ کارگر ثابت ہورہا ہے، جس کے باعث یہ روایتی ہتھیاروں کی جگہ لے رہا ہے۔”
ڈیپ فیک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی بھی شخص کی شکل، آواز اور حرکات کی نقالی کر کے ایک مصنوعی مگر حقیقت سے قریب ویڈیو یا آڈیو تیار کی جا سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ عام آنکھ سے اصل اور نقلی میں فرق کرنا ممکن نہیں رہا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا ایران سے تجارت بڑھانے کا اعلان، کتنا ہدف مقرر کیا گیا ہے؟
پاکستان۔انڈیا کشیدگی، روس-یوکرین جنگ، غزہ-اسرائیل تنازع اور ایران-امریکہ کشیدگی جیسے عالمی تنازعات میں ڈیپ فیک مواد بطور ایک اہم نفسیاتی ہتھیار سامنے آیا ہے۔
سید اسد نعیم کے مطابق “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے پھیلائی گئی غلط معلومات عوامی رائے کو متاثر کر سکتی ہیں، جس سے سیاسی عدم استحکام اور عوامی اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ کا ایک مؤثر ہتھیار بن چکی ہے۔ اس بات کا اقرار ‘کینیڈین سیکیورٹی انٹیلیجنس سروس’ کی رپورٹ میں بھی ہو چکا ہے۔”
روسی صدر پیوٹن یا یوکرینی صدر زیلنسکی کے جعلی پیغامات، یا اسرائیلی حملے کے مناظر کو مسخ کر کے دکھانے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر باآسانی وائرل ہو جاتی ہیں۔ مقصد صرف دشمن کے مورال کو کمزور کر کے عوام میں خوف پیدا کرنا اور عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی محقق ثاقب علی نے کہا کہ “2022 میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے نظر آتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس واقعے نے ظاہر کیا کہ کس طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے دشمن کی حوصلہ شکنی اور غلط معلومات پھیلائی جا سکتی ہیں۔”
پاکستان اور انڈیا کے درمیان رواں ماہ لائن آف کنٹرول کے قریب ایک فضائی جھڑپ ہوئی جس میں بھارتی رافیل طیارے اور پاکستانی J-10C جہازوں کے مابین مقابلہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد بھارتی سوشل میڈیا پر متعدد جعلی ویڈیوز گردش کرتی رہیں جن میں پاکستانی طیاروں کی تباہی یا پاکستانی پائلٹ کی گرفتاری کے مناظر دکھائے گئے، بعد ازاں اس تمام پروپیگنڈے کا پول کھل گیا اور تمام ویڈیو ڈیپ فیک یا پھر پرانی نکلیں۔
ثاقب علی کے نزدیک ” چونکہ جعلی ویڈیوز اور آڈیوز کی تصدیق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ وہ ڈیپ فیک کی شناخت کے لیے جدید ٹولز استعمال کریں اور صحافیوں کو اس حوالے سے تربیت فراہم کریں تاکہ وہ جعلی مواد کا شکار نہ ہوں۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان۔انڈیا کشیدگی کے دوران پاکستانی سوشل میڈیا صارفین، اوپن سورس محققین اور یوٹیوب و لاجیکل بلاگرز نے فوری طور پر ان ویڈیوز کا تجزیہ کیا، ویڈیو کے میٹا ڈیٹا سے پتہ چلا کہ ویڈیو کلپس پرانی تھیں، کچھ ویڈیوز میں پس منظر کا موسم موجودہ موسم سے مختلف تھا، تو بعض آوازیں الگ ایپس سے نکالی گئی تھیں۔ اس بے نقاب کاری کے بعد بھارت کو عالمی میڈیا میں بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
سائبر سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ڈیپ فیک ایسا ‘سائبر بم’ ہے جو دشمن کے اندر سے حملہ کرتا ہے۔ کسی فوجی لیڈر کی جعلی تقریر، یا کسی ملک کے ہتھیار چھوڑنے کی جعلی خبر پورے محاذ کو الٹ سکتی ہے۔
سید اسد نعیم کا ماننا ہے کہ “ڈیپ فیک کا استعمال اگر دشمن کو دھوکہ دینے یا عوامی اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے کیا جائے تو یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔”
ڈیجیٹل میڈیا ریگولیٹرز کے مطابق پاکستان میں ابھی تک ڈیپ فیک کے خلاف کوئی جامع قانون موجود نہیں ہے۔ ثاقب علی کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں ڈیپ فیک کے خلاف مؤثر قانونی فریم ورک کی کمی ہے جس سے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ‘پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 موجود ہے لیکن اس میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا واضح ذکر نہیں ہے۔”
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ عوام ہر وائرل ویڈیو پر فوری یقین نہ کریں۔ اس بارے اسکولوں، جامعات اور صحافی اداروں میں ٹریننگ دی جانی چاہیے۔
سید اسد نعیم کا کہنا ہے کہ “ڈیجیٹل لٹریسی کے کورسز عوام کو یہ سکھانے کے لیے ضروری ہیں کہ وہ جعلی معلومات کی شناخت کیسے کریں اور اس سے کیسے بچیں۔ یہ موجودہ دور میں نہایت ضروری ہے۔”
یورپی یونین، امریکہ، اور اقوامِ متحدہ اب AI اور ڈیپ فیک مواد کے خلاف ضابطہ اخلاق پر غور کر رہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکا جا سکے۔
ثاقب علی کا کہنا ہے کہ “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ میڈیا اور عوامی اعتماد کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے اس بارے ضابطہ اخلاق طے کرنا ناگزیر ہے۔”
جہاں ڈیپ فیک فلم سازی، تعلیم اور تفریح میں نئی راہیں کھول رہا ہے، وہیں اس کا استعمال جھوٹ، جنگ اور فریب کے لیے ایک خطرناک ہتھیار بھی بن سکتا ہے۔
ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز صرف ایک سافٹ ویئر کی کرامات نہیں رہیں، یہ اب جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اس کا قانونی و تکنیکی حل تلاش کریں بلکہ عوام کو باخبر بنائیں تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے کا بروقت اور موثر جواب دیا جا سکے۔