غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری نے نہ صرف انسانی جانوں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ خوراک کی فراہمی کے پورے نظام تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ کی زرعی زمین کا صرف 4.6 فیصد حصہ اب کاشت کے قابل رہ گیا ہے، جب کہ 80 فیصد سے زائد فصلوں کی زمین یا تو تباہ ہو چکی ہے یا کسانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔
اس صورت حال کو ایف اے او نے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے دوران زرعی زمین کی بربادی نے مقامی خوراک کی پیداوار کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘، اسرائیل نے امریکا کا پیش کردہ جنگ بندی کا معاہدہ مسترد کر دیا
رپورٹ کے مطابق 71 فیصد گرین ہاؤسز اور 82 فیصد زرعی کنوئیں تباہ ہو چکے ہیں، جس سے پانی اور خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔

ایف اے او کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بیت بیچڈول نے کہا کہ “یہ صرف زمین کی تباہی نہیں بلکہ غزہ کے پورے زرعی نظام اور ذریعہ معاش کی بربادی ہے۔ جو نظام کبھی لاکھوں افراد کو خوراک، آمدنی اور زندگی فراہم کرتا تھا، آج وہ ملبے میں دفن ہو چکا ہے۔”
رواں ماہ کے آغاز میں انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن نے بھی خبردار کیا تھا کہ غزہ میں قحط کا خطرہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے کچھ امدادی سامان بھیجنے کا اعلان کیا تھا مگر انسانی ہمدردی کی تنظیمیں کہہ رہی ہیں کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، اور قحط زدہ آبادی تک رسائی ناکام ہو رہی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پیر کے روز غزہ شہر میں ایک اسکول پر بمباری کے نتیجے میں آگ لگ گئی، جس میں بچوں سمیت کم از کم 36 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ غزہ کے صحت حکام کے مطابق، صرف پیر کے دن کے آغاز سے شام تک اسرائیلی حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔