پاکستان روایتی طور پر زراعت، ٹیکسٹائل اور سروس سیکٹر کے لیے جانا جاتا تھا۔ لیکن اب تیزی سے ٹیکنالوجی اور جدت کے میدان میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے لگا ہے۔ حالیہ برسوں میں ٹیک کمپنیوں اور انوویشن ہبز نے ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے جو لوگوں کے جینے، کام کرنے اور ایک دوسرے سے جڑنے کے طریقے کو بدل رہا ہے۔ یہ ڈیجیٹل انقلاب اب صرف بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک محدود نہیں رہا بلکہ نئے مواقع، روزگار اور امید کی نئی کرن کے ساتھ چھوٹے شہروں تک بھی پہنچنے لگا ہے۔
اس تبدیلی کی بنیاد مختلف شعبوں میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جن میں صحت، ای کامرس، لاجسٹکس، تعلیم اور مالیات شامل ہیں۔ اس رجحان کو مزید حوصلہ افزا بنانے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کاروبار نوجوان پاکستانیوں نے شروع کیے ہیں، چاہے وہ بیرونِ ملک سے واپس آئے ہوں یا ملک میں ہی رہ کر کچھ نیا اور بامعنی کرنا چاہتے ہوں۔ یہ پُرعزم اور تخلیقی افراد ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ان مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں جو روزانہ لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں سب سے نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، خاص طور پر آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز کی آمد سے۔ اب طلباء اپنے موبائل فونز کے ذریعے معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر بورڈ امتحانات اور داخلہ ٹیسٹس کے لیے لائیو سیشنز، ریکارڈ شدہ لیکچرز اور پریکٹس ٹیسٹس دستیاب ہیں۔ یہ ایپلیکیشنز اُن طلباء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں یا مہنگی یونیورسٹیز کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان پلیٹ فارمز نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی، جامع اور دلچسپ بنایا ہے خاص طور پر ان بچیوں کے لیے جو ثقافتی یا نقل و حرکت سے متعلقہ رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں۔
مالیاتی شعبے میں فِن ٹیک کمپنیوں اور ڈیجیٹل بینکاری نے نمایاں ترقی کی ہے۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں اور روایتی بینکنگ ان تک رسائی میں ناکام رہی ہے۔ ڈیجیٹل بینک اور موبائل والٹ کمپنیاں اس خلا کو پُر کر رہی ہیں جہاں صارفین ایپلیکیشنز کے ذریعے اکاؤنٹ کھولنے، رقم منتقل کرنے اور بلز کی ادائیگی جیسے کام کر سکتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی بینک کا رخ کیے۔ یہ ایپلیکیشنز طلباء، چھوٹے کاروباری افراد اور فری لانسرز کے لیے روزمرہ کے مالیاتی کاموں کو تیز اور آسان بنا رہی ہیں۔ کئی نئے کاروبار ایسے سسٹمز بھی متعارف کرا رہے ہیں جو چھوٹے کاروباروں کو اکاؤنٹس، اخراجات اور تنخواہوں کے انتظام میں مدد دیتے ہیں جس سے معیشت کے غیر رسمی حصے کو رسمی بنانے میں مدد مل رہی ہے۔
ریٹیل اور سپلائی چین کے شعبے میں بھی خاطر خواہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ پاکستان کا ریٹیل سسٹم زیادہ تر چھوٹے دکانداروں اور کریانہ اسٹور مالکان پر مشتمل ہے جو اب نئی کمپنیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ کمپنیاں ایسے موبائل ایپلیکیشنز فراہم کر رہی ہیں جن کے ذریعے دکاندار براہ راست آرڈر کر سکتے ہیں، ڈلیوری کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور بہتر نرخوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف کاروبار کی کارکردگی میں بہتری آ رہی ہے بلکہ ملک بھر میں سپلائی چین بھی مضبوط ہو رہی ہے۔
کرونا وبا کے دوران ڈلیوری سروسز اور رائیڈ-ہیلنگ ایپس کے ذریعے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا۔ جب بہت سے افراد نے اپنی ملازمتیں کھو دیں تو انہوں نے ان پلیٹ فارمز کے ذریعے بطور ڈلیوری رائیڈر یا ڈرائیور کام کرنا شروع کیا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو اسٹارٹ اپ کلچر صرف ٹیکنالوجی یا ایپس نہیں بلکہ روزگار، لچک اور زمینی سطح پر اثرات کے بارے میں ہے۔
یہ تمام جدت صرف اس وقت ممکن ہوئی جب اس کے پیچھے ایک معاون ماحول موجود تھا، یعنی انوویشن ہبز۔ پاکستانی حکومت نے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کئی اقدامات کیے ہیں۔ بڑے شہروں جیسے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں قائم کیے جانے والے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز (NICs) ان اقدامات میں شامل ہیں۔ یہ مراکز اسٹارٹ اپس کو وسائل، رہنمائی اور نیٹ ورکنگ کے مواقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ سرمایہ حاصل کر سکیں اور ترقی کر سکیں۔ کچھ مراکز کو حکومت کی حمایت حاصل ہے جبکہ دیگر کو نجی یا بین الاقوامی اداروں کی۔ ان سب کی مشترکہ سوچ یہی ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں میں ملک کو بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔
تحقیق اور کاروبار کو یکجا کرنے والے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکس کا قیام ایسی ہی کامیاب کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ پارکس اُن کاروباروں کا مرکز ہیں جو جدید ٹیکنالوجیز جیسے روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، ایگریکلچر ٹیک، ہیلتھ ٹیکنالوجی وغیرہ پر کام کر رہے ہیں۔ یہاں ماہرین، محققین اور طلباء مل کر ایسے حل تیار کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔ مقصد ہے کہ پاکستان کو ایسی معیشت میں تبدیل کیا جائے جو صرف مصنوعات نہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی اور خدمات بھی برآمد کرے۔
ہوائی اور دفاعی ٹیکنالوجی میں بھی پاکستان نے قابلِ ذکر ترقی کی ہے۔ جہاں انوویشن ہبز مقامی ٹیلنٹ کو سائبر سیکیورٹی، خلائی ٹیکنالوجی اور ایوی ایشن جیسے شعبوں میں تربیت دے رہے ہیں۔ ان شعبوں میں پیش رفت نہ صرف قومی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے بلکہ عالمی سرمایہ کاری کو بھی متوجہ کرتی ہے۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان جدید منصوبوں سے نوجوانوں کو سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم میں دلچسپی بڑھے گی اور ہزاروں ہائی ٹیک ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
تاہم، ترقی کی اس راہ میں کچھ چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ مالی وسائل کا حصول پاکستانی اسٹارٹ اپس کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرچہ مقامی سرمایہ کاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، پھر بھی زیادہ تر کمپنیاں غیر ملکی سرمایہ پر انحصار کرتی ہیں جو بعض اوقات مقامی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ مزید برآں، کچھ علاقوں میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی، پالیسیوں میں عدم تسلسل اور ریگولیٹری مسائل بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔
خاص طور پر ڈیٹا سائنس، پروڈکٹ مینجمنٹ اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے تکنیکی شعبوں میں ماہرانہ افرادی قوت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں گریجویٹس پیدا ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر ڈیجیٹل دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کوڈنگ بوٹ کیمپس، انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کے اشتراک اور ووکیشنل ٹریننگ پر مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کئی کمپنیاں ورکشاپس، انٹرن شپس اور آن لائن تربیت کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ صنفی عدم مساوات ہے۔ اگرچہ خواتین کی قیادت میں چلنے والے کاروباروں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن سماجی و ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے بہت سی باصلاحیت خواتین ملازمت کے مواقع سے محروم رہتی ہیں۔ کئی انوویشن ہبز اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خواتین کے لیے ریموٹ ورک، لچکدار اوقات اور رہنمائی کے پروگرام فراہم کر رہے ہیں۔ خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانا نہ صرف اخلاقی طور پر درست ہے بلکہ معیشت کی جامع ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔
اس ایکو سسٹم کو جاری رکھنے کے لیے حکومتی مدد کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ پالیسیاں جو انٹیلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں، کاروبار شروع اور چلانے کو آسان بناتی ہیں، اور ٹیک کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ فراہم کرتی ہیں وہ کاروباری افراد کا اعتماد بڑھا سکتی ہیں۔ عوامی و نجی اشتراک، ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام اور اسٹارٹ اپ رجسٹریشن پورٹلز جیسے اقدامات حوصلہ افزا آغاز ہیں۔ لیکن ان اقدامات کو جاری رکھنا اور مزید وسعت دینا ضروری ہے تاکہ مقامی سطح پر جاری جدت کے ساتھ ہم آہنگ رہا جا سکے۔
پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل روشن ہے بشرطیکہ تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی سرمایہ کار، کاروباری افراد، تعلیمی ادارے، پالیسی ساز اور عوام مل کر کام کریں۔ اگر اس ایکو سسٹم کو درست طریقے سے سہارا دیا جائے تو یہ نہ صرف روزگار پیدا کر سکتا ہے اور برآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے بلکہ کئی سماجی و اقتصادی مسائل کا حل بھی بن سکتا ہے۔ امکانات لا محدود ہیں چاہے وہ ٹیلی میڈیسن ہو، سمارٹ فارمنگ، ای-لرننگ یا ای-گورننس ہو۔
دنیا تیزی سے آپس میں جُڑ رہی ہے اور مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے پیچھے رہ جانا کوئی آپشن نہیں۔ تبدیلی کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ اب درست فنڈنگ، تربیت، پالیسی سازی اور سب سے بڑھ کر جدت کی صلاحیت پر اعتماد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نوجوان پہلے ہی اپنی ذہانت، اختراع اور عزم کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر ایک زیادہ ذہین، مضبوط اور خوشحال پاکستان بنانے میں ان کا ساتھ دیں۔