Follw Us on:

عوامی حقوق کا نعرہ لگانے والی سندھ سرکار کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟

احسان خان
احسان خان
Sindh protest
عوامی حقوق کا نعرہ لگانے والی سندھ سرکار کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟( فائل فوٹو)

‘روٹی، کپڑا اور مکان’،’عوام کی حکومت، عوام کے لیے’، یہ وہ نعرے ہیں، جو دہائیوں سے سندھ کی سیاست کا مرکز رہے ہیں، مگر سندھی عوام بنیادی سہولیات، روزگار، تحفظ اور انصاف کے لیے سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور ہوکر رہ گئی ہے۔ سندھ حکومت نے عوامی حقوق کو سیاسی ایجنڈا تو بنایا، مگر عوامی مسائل کو ترجیحی فہرست میں شامل کرنے کے لیےناکام ثابت ہوئی۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوان صحافی سراج حمید نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کا نعرہ ‘روٹی، کپڑا اور مکان’ عوامی امیدوں سے جڑا ہے، مگر سندھ میں طویل حکمرانی کے باوجود غربت، بےروزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی برقرار ہے۔ کچھ ترقیاتی کام ہوئے ہیں، مگر وسیع پیمانے پر عوام کی بنیادی ضروریات ابھی تک پوری نہیں ہو سکیں۔

عوامی حقوق کا پرچم بلند کرنے والی سندھ حکومت ایک بار پھر عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں سندھ کے مختلف علاقوں میں پرتشدد مظاہروں، توڑ پھوڑ اور املاک کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات نے حکومتی کارکردگی پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔

کہیں پانی کا مسئلہ ہے تو کہیں بجلی کی طویل اور اذیت ناک بندش نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، جب کہ کہیں پر کینالز کا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

سراج حمید نے کہا کہ یہ احتجاجات پیپلز پارٹی کے لیے بڑی ناکامی ہیں کیونکہ ایک ہی صوبہ میں اتنے عرصے تک حکومت کرنے کے باوجود صوبے کے لیے کچھ خاطر خواہ نہیں کیا گیا۔

کینالز کی تعمیر کا مسئلہ طویل عرصے سے حل طلب ہے، جس کے باعث سندھ کے مختلف علاقوں میں عوام شدید بےچینی کا شکار ہیں۔ نوشہرو فیروز کے شہر مورو میں اسی تنازع پر ہونے والا احتجاج حالیہ دنوں میں پرتشدد شکل اختیار کر گیا، جب مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

اس تصادم میں دو افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں ڈی ایس پی سمیت چھ پولیس اہلکار شامل ہیں۔ مظاہرین نے صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار کے گھر پر حملہ کیا، توڑ پھوڑ کی اور دو مال بردار ٹرکوں کو آگ لگا دی۔ بعض مقامات پر لوٹ مار کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

سراج حمید نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ سندھ حکومت کی بعض ترقیاتی پالیسیاں سیاسی مفادات سے متاثر نظر آتی ہیں، جس کے باعث نہری نظام کی بہتری کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ کینالز کی مرمت اور شفاف تقسیم میں کوتاہی عوامی مسائل میں اضافہ کر رہی ہے، جب کہ فنڈز کا استعمال محدود علاقوں تک محدود رہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ کینال منصوبے پر شفافیت، عوامی مشاورت اور منصفانہ پانی کی تقسیم کو یقینی بنانے والا لائحہ عمل اپنایا جائے۔ تکنیکی ماہرین کی نگرانی، بدعنوانی کا خاتمہ اور ہر ضلع کی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی سے عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور مظاہرے ختم ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب کراچی میں شدید گرمی، حبس اور طویل لوڈشیڈنگ نے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ نارتھ ناظم آباد، کورنگی چکرا گوٹھ، چنیسر گوٹھ اور کالا پل سمیت مختلف علاقوں میں شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور سڑکیں بند کر دیں، جس سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ کئی کئی گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے اور پانی کا بھی شدید بحران ہے، جب کہ حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

نوجوان صحافی سراج حمید  نے کہا ہے کہ سندھ میں پانی اور بجلی کا مسئلہ بہتر منصوبہ بندی، شفاف انتظام، قابلِ تجدید توانائی اور جدید آبپاشی نظام سے حل ہو سکتا ہے۔ پانی چوری روکنا، نہری نظام کی بہتری، سولر و ونڈ پاور کو فروغ دینا اور عوامی شعور بیدار کرنا اس کا مستقل حل بن سکتے ہیں۔

عوام جب اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوتی ہے تو مجبوراً حکومت کے خلاف سڑکوں پر آتی ہے، مگرریاست کے خلاف مظاہروں کے بجائے مسائل کے حل کے لیے پُرامن اور تعمیری راستے اختیار کیے جانے چاہئیں۔

 پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان نے کہا ہے کہ عوامی حقوق کے لیے احتجاج کرنا ایک جمہوری حق ہے، مگر احتجاج کے دوران عوامی و نجی املاک کو نقصان پہنچانا، شہریوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ ڈالنا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ناقابل قبول ہیں۔

اس صورتحال کے تناظر میں یہ سوال شدت سے ابھر رہا ہے کہ اگر حکومت بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مسلسل ناکام رہے گی، تو کیا عوام کی آواز کو ہمیشہ کے لیے دبایا جا سکتا ہے؟

اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کریں اور انہیں احتجاج کرنے کے لیے مجبور نہ کریں۔

ڈاکٹر عثمان نے مزید کہا کہ حکومت عوام کی آواز اس وقت بن سکتی ہے جب وہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے سنے اور ان کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ شفافیت، جواب دہی اور عوامی شمولیت کو پالیسی سازی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ اصل قیادت وہی ہے جو عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے اور اس پر فوری عمل کرے۔

واضح رہے کہ یہ صورت حال اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ عوامی حقوق کا نعرہ لگانا تب تک بےمعنی ہے جب تک اس کے پیچھے عملی اقدامات نہ ہوں۔ سندھ حکومت کے لیے یہ مظاہرے ایک وارننگ ہیں کہ عوام اب محض دعوؤں سے مطمئن نہیں ہوں گے، انہیں پانی، بجلی، روزگار اور تحفظ چاہیے۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس