درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے، جو اب صرف ماحولیاتی ماہرین تک محدود نہیں رہا بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں بھی گھل چکا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں ہر سال سردیوں کے آغاز سے ہی سموگ کی دبیز چادر پورے ماحول کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
دوسری طرف گرمیوں میں ہیٹ ویوز کا سلسلہ اتنا شدید ہوگیا ہے کہ کئی علاقے ناقابل رہائش بنتے جا رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ، کاربن کا اخراج، شہروں کی بے ہنگم تعمیرات، جنگلات کی کٹائی اور جدید زندگی کی سہولیات کا بے دریغ استعمال اس مسئلے کی جڑ ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ صورتحال نہ صرف صحت کا بحران ہے بلکہ اقتصادی، زرعی اور ماحولیاتی بحران کی شکل بھی اختیار کر چکی ہے۔
سموگ کی اصل وجہ فضاء میں موجود آلودہ ذرات، گاڑیوں کا دھواں، فیکٹریوں کی گیسیں اور فصلوں کی باقیات جلانا ہے۔ سرد موسم میں جب ہوا ساکن ہو جاتی ہے تو یہ تمام آلودگی فضا میں جمی رہتی ہے اور سموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ہیٹ ویوز کی وجوہات میں سب سے نمایاں گلوبل وارمنگ ہے جو زمین کی سطح کا درجہ حرارت مسلسل بڑھا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (IPCC) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کا درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کرنے کے قریب ہے، جس کا مطلب ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرے گی۔ پاکستان پہلے ہی ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کو ماحولیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن یہ رفتار ناکافی ہے۔ ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹمز، سیٹلائٹ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت (AI) اور بگ ڈیٹا اینالیسز جیسے جدید طریقوں سے اب سموگ اور گرمی کی شدت کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
لاہور میں قائم ’سموگ مانیٹرنگ لیب‘ اس وقت کئی مقامات سے ایئر کوالٹی کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض علاقوں میں فضاء کا معیار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ تاہم، یہ سسٹمز صرف ڈیٹا دینے تک محدود ہیں، ان پر عملدرآمد کرنے والے پالیسی ساز اور ادارے ابھی تک مؤثر کارروائی نہیں کر پائے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر ماہ نور علی سے، جو نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) میں ماحولیاتی تحقیق سے وابستہ ہیں، کا کہنا تھا کہ “ہمیں ہر وقت صرف بارش کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ سموگ دھو دے گی، بلکہ ہمیں خود ایسے سسٹمز نافذ کرنے ہوں گے جو گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں کو کنٹرول کریں۔ جدید دنیا میں الیکٹرک وہیکلز، گرین بلڈنگز، اور رینیوایبل انرجی کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے، ہمیں بھی ان سمتوں پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔”
کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان انجینیئر آصف گلزار کہتے ہیں کہ “ہم نے ایک سسٹم ڈیزائن کیا ہے جو شہر کی ٹریفک، ایئر کوالٹی اور درجہ حرارت کا رئیل ٹائم ڈیٹا فراہم کرتا ہے تاکہ شہری حکومت فوری اقدامات کر سکے۔ بدقسمتی سے، مقامی حکومتوں میں نہ صرف تکنیکی فہم کی کمی ہے بلکہ وہ پالیسی سطح پر بھی ڈیٹا بیسڈ فیصلے لینے سے قاصر ہیں۔”

لاہور کی رہائشی اور اسکول ٹیچر نوشین فاطمہ کا کہنا تھا، “ہم صرف ماسک پہنا کر اپنے بچوں کو محفوظ نہیں کر سکتے۔ ہمیں شجرکاری، ماحولیاتی تعلیم اور عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی مہم چلانی چاہیے۔ اگر اسکولوں میں ہی بچوں کو کلائمٹ چینج کی تعلیم دی جائے تو آئندہ نسل زیادہ ذمہ دار بن سکتی ہے۔”
ان تمام آراء سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹیکنالوجی موجود ہے، ماہرین موجود ہیں، لیکن پالیسی، نیت اور ادارہ جاتی سنجیدگی کا فقدان ہے۔ سموگ اور ہیٹ ویوز سے نجات ممکن ہے لیکن اس کے لیے حکومت، صنعت، میڈیا اور عوام کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔
چین جیسے ممالک نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے شہریوں کو ای بائیکس، رینیوایبل انرجی پر مبنی انڈسٹری اور کاربن ٹریڈنگ سسٹمز کے ذریعے ماحول دوست بنایا ہے۔ بھارت میں بھی کئی ریاستوں نے فصلوں کی باقیات جلانے کے بجائے بایوفیول میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی ماحولیاتی پالیسیوں کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرے، جدید ٹیکنالوجی کو اپنائے، اور سب سے بڑھ کر ماحولیاتی انصاف کو ترجیح دے۔ بصورت دیگر، سموگ کی یہ چادر اور گرمی کی یہ شدت ہمارے شہروں کو رہائش کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ایک سست رفتار تباہی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے، اور اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو شاید بہت دیر ہو جائے۔