آخرکاروہ دن بھی آگیا جس کی طرف کئی فکری حلقے، مذہبی جماعتیں اور آئینی ماہرین برسوں سے متوجہ کر رہے تھے۔۔۔ جمعے کے دن صدرمملکت آصف علی زرداری نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے متنازعہ بل پر دستخط کر دیے۔
جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کو نہ صرف جرم قرار دیا گیا بلکہ اسے ناقابلِ ضمانت اور قابلِ سزا جرم بھی بنا دیا گیا ہے۔۔اس قانون کا فوری اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہو گا جبکہ سندھ میں یہ قانون پہلے ہی سندھ اسمبلی کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہے۔۔۔
ایک خاموش اعلان کے ذریعے ریاست پاکستان کے سب سے بڑے منصب سے اسلامی اقدار کے خلاف ایک قدم اٹھایا گیا اور اس پر سب سے پہلا ردِ عمل کسی سرکاری ادارے یا ایوانِ صدر سے نہیں آیا بلکہ پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شیری رحمن کے سوشل میڈیا اکاونٹ سے عوام تک پہنچا۔۔۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں ایک با خبر اورسنجیدہ ذہن سوالات کی ایک لڑی میں الجھ جاتا ہے۔۔۔
کیا یہ فیصلہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 227 سے متصادم نہیں؟ جو واضح الفاظ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا؟ کیا صدر مملکت جیسے آئینی عہدے کے حامل شخص کو اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت، مختلف مکاتبِ فکر کے جید علما کی اپیلیں اور شریعت کے اصولوں کو یکسر نظرانداز کر کے اس بل پر دستخط کر دینے کا حق حاصل ہے؟
کیا ریاستی سطح پر قانون سازی اب عوامی امنگوں،مذہبی شناخت اور آئینی دائرہ کار کے بجائے عالمی اداروں کے دباو اور مغربی بیانیے کی روشنی میں ہو رہی ہے؟؟؟۔۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔۔۔کونسل کے مطابق اس قانون کی مختلف شقیں اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں،خصوصاً وہ دفعات جو سزا کی نوعیت،عمر کی حد اور نکاح کے عمل کو قانونی گرفت میں لانے سے متعلق ہیں۔۔۔
کونسل نے نہ صرف اس بل کی مخالفت کی بلکہ اسے مکمل طور پر شریعت سے متصادم قرار دے کر مسترد کر دیا۔۔۔البتہ یہ ضرور کہا کہ کم سنی کی شادیوں میں بعض مفاسد کا امکان ہوتا ہے اور ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے لیکن یہ ایک سماجی اصلاح ہے،نہ کہ جرم قرار دینے کی بنیاد۔۔۔لیکن جب اصلاح کو جرم میں تبدیل کیا جائے اور نکاح جیسے مقدس بندھن کو تعزیری ضابطوں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو بات محض قانون سازی سے آگے نکل جاتی ہے۔۔۔
یہ اقدام محض ایک وقتی قانون نہیں بلکہ ایک تہذیبی یلغار کی نمائندگی کرتا ہے۔۔۔اس قانون سے وہ بچیاں اور بچے بھی زد میں آ جائیں گے جو اپنے ولی کی اجازت سے اور اسلامی اصولوں کے تحت نکاح کرنا چاہتے ہوں گے کیونکہ قانون اب ان کی نیت یا فہم سے بالاتر ہو چکا ہے۔۔۔نکاح خواں،والدین اور گواہ سب قانون کی زد میں آ سکتے ہیں،چاہے ان کا مقصد خالصتاً اسلامی ہو۔۔۔شریعت کے مطابق، نکاح کے لیے بلوغت بنیادی شرط ہے اور بلوغت کی عمر جسمانی اور ذہنی علامات سے طے ہوتی ہے،نہ کہ کسی خاص عددی حد سے۔
امام ابو حنیفہؒ،امام شافعیؒ اور دیگر آئمہ کرام نے بلوغت کے تعین میں فطری و جسمانی علامات کو بنیاد بنایا ہے۔۔۔اٹھارہ سال کی عمر صرف ایک قانونی سہولت ہو سکتی ہے،شریعت کا معیار ہرگز نہیں۔۔۔جب شریعت میں گنجائش موجود ہے کہ ایک لڑکی اگر حیض کی عمر کو پہنچ گئی ہے اور اس میں نکاح کی اہلیت ہے تو اس کا نکاح درست ہے تو پھر ریاست کی طرف سے اٹھارہ سال کی عمر کی پابندی عائد کرنا شریعت کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے؟۔۔
اب آئیے اس بات کی جانب کہ اس قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس سوال کا جواب بظاہر بچوں کے تحفظ کے نام پر دیا جا رہا ہے۔۔۔دعویٰ یہ ہے کہ کم عمری کی شادی بچوں کی جسمانی،ذہنی اور تعلیمی نشو و نما کو متاثر کرتی ہے لیکن کیا پاکستان کے دیہی،قبائلی اور ثقافتی پس منظر میں یہ دلیل واقعی ہر صورت قابلِ اطلاق ہے؟کیا ہر بچی یا بچہ جو اٹھارہ سال سے کم عمر ہو،لازمی طور پر نکاح کے لیے ناتواں بھی ہے؟کیا ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ ہر فرد کی بلوغت کا فیصلہ ایک عددی حد سے کرے اور اس کے فطری ارتقاء کو نظر انداز کر دے؟۔۔یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی اور مغربی تصورِ قانون آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔۔۔
مغرب میں بلوغت کی عمر کا تعین قانونی عمر سے ہوتا ہے جبکہ اسلام میں اس کا انحصار انفرادی حالت پر ہے۔۔۔ہم نے اگر مغربی نظامِ قانون کو بنیاد بنانا ہے تو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہم شریعت سے انحراف کی راہ پر گامزن ہیں۔۔۔ہم نے اگر اقوامِ متحدہ کی ہدایات،عالمی این جی اوز کے مطالبات اور فنڈنگ اداروں کی خوشنودی کے لیے قانون سازی کرنی ہے تو پھر اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے محض نمائشی بن کر رہ جائیں گے۔۔۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی حکومت،جو بارہا اسلام کے نام پر ووٹ مانگتی ہے،جب اقتدار میں آتی ہے تو اس کے قانون سازی کے تمام زاویے مغربی ایجنڈوں سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔۔۔وہ صدرمملکت،جو ماضی میں سیاسی مفاہمت کا چیمپئن سمجھا جاتا تھا،آج ایک ایسے بل پر دستخط کر رہا ہے جس کی مخالفت نہ صرف مذہبی حلقے بلکہ آئینی ماہرین بھی کر چکے ہیں۔۔ ۔ ایوانِ صدر سے اس بل پر کوئی وضاحت تک جاری نہیں کی گئی،گویا ریاستی سطح پر اب مذہبی حساسیت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جا رہا۔۔۔ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس بل کے بعد شادی کا عمل مزید قانونی پیچیدگیوں میں الجھ جائے گا۔۔۔
نکاح،جو اسلام میں ایک آسان اور سادہ عمل ہے،اب ایک قانونی میدانِ جنگ میں بدل جائے گا۔۔۔والدین جو اپنی اولاد کے لیے جلدی نکاح کو دینی و اخلاقی تحفظ سمجھتے ہیں،اب قانونی گرفت سے خائف ہو کر زنا اور آزادانہ تعلقات کو چپ چاپ برداشت کریں گے۔۔۔
یوں ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی جو حلال اور حرام کی تمیز کھو دے گی۔۔۔کیا ریاست اس سنگین بگاڑ کی ذمہ داری قبول کرے گی؟۔۔اس مقام پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ اگر اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے نکاح جرم ہے تو کیا اٹھارہ سال سے کم عمر کے وہ افراد جو جنسی بلوغت کو پہنچ چکے ہوں اور غیر شرعی تعلقات میں مبتلا ہو جائیں،ان کے لیے بھی اسی نوعیت کے قوانین موجود ہیں؟نہیں،ان کے لیے نہ قانون سخت ہے،نہ گرفت۔۔۔
اصل میں یہ قانون نکاح کو مشکل بنانے کے لیے ہے،نہ کہ فحاشی کو روکنے کے لیے۔۔۔اگر کسی بچی کو جنسی تعلقات کی آزادی ہو لیکن نکاح کی اجازت نہ ہو تو یہ کس قسم کی ”تحفظ“ پالیسی ہے؟؟؟۔آج اگر ہم نے اس قانون کی مخالفت نہ کی،اس پر علمی،فقہی،قانونی اور آئینی بنیادوں پر سوال نہ اٹھایا تو یہ راستہ پھر صرف ایک قانون پر نہیں رکے گا۔۔۔اگلا ہدف شاید پردے کا تصور ہو،پھر خاندانی نظام،پھر ماں باپ کی ولایت اور بالآخر مذہب کی اپنی تعبیر۔۔۔ہم اس وقت ایک عالمی فکری یلغار کی زد میں ہیں،جہاں مذہب کو نجی معاملہ اور ریاست کو سیکولر ادارہ بنایا جا رہا ہے۔۔۔یہ قانون سازی اس یلغار کا پہلا پتھر ہے۔۔
۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ضرورت صرف احتجاج یا ردِعمل کی نہیں بلکہ ایک فکری،علمی اور تحریکی سطح پر بیداری کی ہے۔۔۔مدارس،جامعات،علما،محققین اور رائے عامہ بنانے والے تمام طبقات کو متحد ہو کر یہ پیغام دینا ہو گا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 227 محض کاغذی شق نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے جذبات کی نمائندگی ہے۔۔۔
اگر ریاست اسی راستے پر چلتی رہی تو وہ صرف آئینی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرے گی بلکہ ایک دن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تصور بھی دھندلا پڑ جائے گا۔۔۔ایسا نہیں کہ کم عمری کی شادیوں کے منفی پہلو نہیں ہیں مگر ان کا حل اسلامی تعلیمات سے متصادم قوانین میں نہیں بلکہ شعور و آگہی،مشاورت اور اصلاحِ احوال میں ہے۔۔۔
اگر بعض والدین کم سنی میں بچیوں کی شادی کرتے ہیں تو انہیں فہم و تدبر سے قائل کیا جائے مگر یہ سمجھنا کہ ہر نکاح جرم ہے،وہ بھی صرف عمر کے عددی فرق سے،تو یہ اسلام کی روح کے خلاف ہے۔۔۔قوموں کی بقا صرف ترقیاتی منصوبوں،معاشی اعداد و شمار اور خارجہ تعلقات سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی تہذیب،عقیدہ،خاندانی نظام اور دینی شناخت سے جڑی ہوتی ہے۔۔۔آج جب ایک خاندانی اصول، یعنی نکاح،کو قانونی کٹہرے میں لایا جا رہا ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی وہ قلعہ ہے جس کے سائے میں پاکدامن نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔۔۔اگر یہ قلعہ کمزور پڑ گیا تو نہ خاندان بچے گا،نہ معاشرہ اور نہ ہی ریاست ۔۔۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم،علما،دانشور،وکلا اور عوام،سب یک زبان ہو کر یہ مطالبہ کریں کہ اس قانون پر نظرِثانی کی جائے۔۔۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور قانون سازی میں شریعت کو بنیاد بنایا جائے۔۔۔اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ گواہ ہے کہ وہ اقوام جو اپنی اساس سے منہ موڑ لیتی ہیں وہ اقوام پھر تاریخ کے اوراق میں فقط ایک نشانِ عبرت بن کر رہ جاتی ہیں۔۔۔