Follw Us on:

بلاول بھٹو کی سربراہی میں ’مشن کشمیر‘: ‘چین اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر تعمیری کردار ادا کرے’

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Bilawal bhutto

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان کے اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب رکن ممالک (E10) کے مستقل مندوبین کو انڈیا کی حالیہ جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی تشویشناک علاقائی صورتحال سے آگاہ کیا۔

یہ ملاقات جنوبی ایشیا میں حالیہ انڈین جارحانہ اقدامات کے تناظر میں پاکستان کی جاری سفارتی مہم کا حصہ تھی، جس کا مقصد عالمی برادری کو خطے میں امن و استحکام کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنا ہے۔

پاکستانی وفد میں بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ ڈاکٹر مصدق ملک، انجینیئر خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمان، سابق وزیرِ مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر، سینیٹر فیصل سبزواری، سابق سفیر تہمینہ جنجوعہ اور سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی شامل ہیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے E10 ممالک کے نمائندوں کو پہلگام حملے کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان پر عائد کیے گئے بے بنیاد اور قبل از وقت الزامات کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے بغیر کسی قابلِ اعتبار تحقیق یا شواہد کے پاکستان پر الزام تراشی کی، جو بین الاقوامی سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات جیسے شہری آبادی کو نشانہ بنانا اور “انڈس واٹر ٹریٹی” کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرناک ہیں بلکہ بین الاقوامی اصولوں اور ریاستوں کے درمیان روایتی تعلقات کے تقاضوں کے بھی منافی ہیں۔

واضح رہے کہ بلاول بھٹو نے  نیو یارک پہنچنے کے بعد سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس لکھا کہ میں نیویارک پہنچ چکا ہوں، جہاں میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی آواز بنوں گا،میں دنیا کو یہ بتانے آیا ہوں کہ پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا پُرزور حامی ہے اور کوئی طاقت اُن کے اس حق کو سلب نہیں کر سکتی۔ پانی ہماری زندگی ہے، اس پر زبردستی کسی صورت قبول نہیں۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ ‘سندھ طاس معاہدے’ پر حملہ ہمیں ہرگز منظور نہیں،ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں، لیکن کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری سرحدوں کو نقصان پہنچائے،پاکستان امن چاہتا ہے ۔

وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی مسرت ملک نے اجلاس میں کہا کہ “انڈس واٹر ٹریٹی” کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی قلت، غذائی عدم تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات میں سنگین اضافہ ہو گا، جو 24 کروڑ عوام کے لیے ایک بڑے انسانی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

Bilawal bhutto
سندھ طاس معاہدے’ پر حملہ ہمیں ہرگز منظور نہیں۔ (فوٹو: بی بی سی اردو)

وفد نے زور دیا کہ پاکستان کا ردعمل مکمل طور پر ذمہ دارانہ، قانونی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت خود دفاع کے حق کے مطابق تھا۔ وفد نے بین الاقوامی قانون کی پاسداری، انڈس واٹر معاہدے کی بحالی اور جامع مذاکرات کے آغاز پر زور دیا تاکہ جموں و کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب رکن ممالک (E10) نے پاکستان کی جانب سے کی گئی سفارتی کاوشوں کو سراہا اور امن، مذاکرات اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے اس کے عزم کو خوش آئند قرار دیا۔

مندوبین نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں تنازعات کو بڑھانے کے بجائے سفارتی ذرائع سے حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے اصول ریاستوں کے طرزِ عمل کی رہنمائی کے لیے بنیادی ستون ہونے چاہئیں۔

پاکستانی وفد نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ صرف تنازعات کے نظم و نسق تک محدود نہ رہے، بلکہ پائیدار اور بامعنی حل کی طرف قدم بڑھائے تاکہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن ممکن ہو سکے۔

پاکستان اور چین نے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن، کثیر الجہتی تعاون اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جارحانہ اقدامات اور یکطرفہ فیصلے خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور ان کی سختی سے مخالفت کی جانی چاہیے۔

یہ اعلامیہ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب سفیر فو کانگ اور اقوام متحدہ کے دورے پر آئے پاکستانی پارلیمانی وفد کی ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: چین سے گوادر تک: سی پیک پاکستان کے لیے ترقی کا سفر یا  پھر خودمختاری پر خطرہ؟

ملاقات میں انڈیا کی حالیہ جارحانہ پالیسیوں، خاص طور پر 22 اپریل 2025 کو پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی سیکیورٹی صورتحال اور پاکستان کی جانب سے خطے میں امن قائم رکھنے کی کوششوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی اشتعال انگیزی کے دوران چین کی غیر متزلزل حمایت پر پاکستانی قوم کی جانب سے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دارانہ اور محتاط طرز عمل اختیار کیا، جب کہ انڈیا نے اشتعال انگیزی اور الزامات کی سیاست کو فروغ دیا۔

چیئرمین بلاول بھٹو نے زور دیا کہ جموں و کشمیر کا تنازع جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ناگزیر ہے، چین اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر تعمیری کردار ادا کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے پہلگام حملے کی غیر جانبدار، شفاف اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی، جسے انڈیانے مسترد کر کے اپنی جارحانہ نیت کو واضح کیا۔

پاکستانی وفد نے چین کو آگاہ کیا کہ انڈیا نہ صرف پاکستانی سرزمین پر بلاجواز حملے کر رہا ہے بلکہ جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کر رہا ہے اور “انڈس واٹرز ٹریٹی” کو معطل رکھ کر آبی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وفد نے ان اقدامات کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔

دونوں فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی نظام میں امن قائم رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے منشور، دو طرفہ و کثیر الجہتی معاہدوں اور عالمی قوانین کا احترام لازم ہے۔ چین اور پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ علاقائی استحکام، سفارتی مکالمے اور پرامن تنازعات کے حل کے لیے قریبی تعاون جاری رکھیں گے۔

ملاقات کے اختتام پر دونوں ممالک نے اس بات پر مکمل اتفاق کیا کہ جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور تعاون کو برقرار رکھنے کے لیے جارحیت اور یکطرفہ اقدامات کی ہر سطح پر مزاحمت ضروری ہے۔

Pakistan economic forum
انڈیا نہ صرف پاکستانی سرزمین پر بلاجواز حملے کر رہا ہے بلکہ جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ (فوٹو: بی بی سی اردو)

پاکستانی سفارتی وفد کی اہم رکن اور سینیٹ کی سابق قائدِ حزبِ اختلاف سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور انڈیا کے من گھڑت بیانیے کو اس بار سچ کا روپ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی میڈیا سیل سے جاری بیان میں شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ پائیدار ترقی کو استحکام کی بنیاد بنایا ہے اور وہ علاقائی امن و سلامتی میں واضح دلچسپی رکھتا ہے۔ پاکستان دنیا کو انڈین پالیسیوں کے خطرناک نتائج سے مسلسل آگاہ کرتا رہے گا۔

شیری رحمان کے مطابق پاکستان کا وفد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کے گرد اعلیٰ سطحی کثیرالجہتی ملاقاتوں کا بھرپور شیڈول مکمل کر رہا ہے، یہ ملاقاتیں محض تصویری مواقع نہیں بلکہ سٹریٹجک اہمیت کی حامل ہیں، جہاں پاکستان کا سفارتی ایجنڈا بھرپور انداز میں بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حیثیت ایک ذمہ دار اور مستحکم “مڈل پاور” کے طور پر اجاگر کی جا رہی ہے۔ ہم پرامن، منصفانہ اور وسیع مکالمے کے حامی ہیں، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں اب مزید نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔

شیری رحمان نے انڈیاپر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا جھوٹے دہشت گردی کے الزامات کو جنگ کے جواز کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور یہ رجحان معمول نہیں بننے دیا جا سکتا۔ دہشت گردی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا حل بھی سنجیدگی سے نکالا جانا چاہیے، پوری دنیا کو ہائپر نیشنل ازم اور جنگی جنون کے ذریعے خطرے میں ڈالنے کی انڈین پالیسی ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل ترین زمینی جنگ لڑی ہے، جس میں عوام، فوج اور قیادت سب نے قربانیاں دی ہیں۔ ہم نے خون اور سرمایہ دونوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو بھی انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں، انڈیاکے جھوٹے بیانیے ہمیں کسی فلمی اسکرپٹ کا حصہ نہیں بنا سکتے۔

سینیٹر شیری رحمان نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں، اور وہ انڈین خلاف ورزیوں پر پاکستان کا مؤثر اور مدلل مؤقف بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ چار روزہ جنگ کے دوران چیئرمین بلاول کا ردعمل واضح، منطقی اور پُراثر رہا۔ انہوں نے پانی، کشمیر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کا ٹھوس مؤقف پیش کیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر امن پر مبنی بین الاقوامی مکالمے کا حامی ہے، لیکن قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ چاہے وہ جنگ ہو یا سفارتی محاذ، پاکستان ہر میدان میں دفاع کرنا جانتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان اورانڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جس دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر عسکری کارروائیوں کے الزامات عائد کیے۔ ان واقعات کے بعد دونوں حکومتوں نے عالمی سطح پر سفارتی مہمات تیز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب انڈیا نے بھی امریکہ، یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں اپنے سات پارلیمانی وفود روانہ کیے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر بھارت کے مؤقف کی وکالت کر رہے ہیں۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس