Follw Us on:

عمران خان کا جیل سے تحریک چلانے کا اعلان، کیا ایسا ممکن ہوپائے گا؟

احسان خان
احسان خان
Imran khan protest
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ ( فائل فوٹو)

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے، تاہم اس بار تحریک کا مرکز اسلام آباد کے بجائے ملک بھر کے اضلاع ہوں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ احتجاجی مہم نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی پرامن انداز میں چلائی جائے گی۔

تحریک انصاف کی ماضی کی احتجاجی حکمت عملی ہمیشہ اسلام آباد کو مرکز بنا کر چلائی جاتی رہی ہے، تاہم 26 نومبر 2024 کے احتجاج کے بعد پارٹی نے کوئی ملک گیر تحریک یا احتجاج نہیں کیا۔ اب ضلعی سطح پر ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جسے اس  تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ مرکزی مقام پر کارکنان کی بڑی تعداد اکٹھا کرنا اب ممکن نہیں رہا، جو کہ ضلعی سطح پر پارٹی کو فائدہ ہو گا۔

اس حوالے سے سیاسات کے پروفیسر ڈاکٹر عرفان نے پاکستان میٹرزسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  تحریک انصاف کی جانب سے اس بار احتجاجی تحریک کا آغاز ضلعی سطح سے کرنا ایک قابلِ ستائش حکمت عملی ہے۔ اس سے امید کی جا رہی ہے کہ گزشتہ تحریکوں کے مقابلے میں اس بار عوامی شمولیت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ لوگ اپنے مقامی علاقوں میں زیادہ آسانی سے جمع ہو سکیں گے۔ اس مقامی سطح پر عوامی شرکت تحریک کو نہ صرف تقویت دے گی بلکہ پارٹی قیادت اور کارکنان کے حوصلے کو بھی بلند کرے گی۔

26 نومبر 2024 کے احتجاج کے حوالے سے پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس پرامن مظاہرے پر سیدھی فائرنگ کی گئی، جس میں متعدد کارکنان شہید ہوئے۔ اسی واقعے کو بنیاد بنا کر عمران خان نے حالیہ اعلان میں کہا کہ ہم پرامن احتجاج کرتے ہیں اور ہمیں گولیاں ماری جاتی ہیں، اب ہم مزید گولیاں نہیں کھائیں گے۔ پوری قوم اور اوورسیز پاکستانیوں کو احتجاج کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

سیاسات کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ عمران خان صاحب جب سے جیل میں ہیں ان کی پارٹی تنظیمی طور پر تتر بتر ہے ، اب اگر ان حالات میں تحریک کا اعلان ہوا ہے تو یہ سوال بھی ہے اس تحریک کی انسٹرکشنز علیمہ خانم دے گی ، علی امین دیں گے ، بیرسٹر گوہر دیں گے یا پنجاب کی قیادت دے گی کیونکہ خان صاحب سے ملاقات کے بعد ہر بندہ ایک الگ بندہ کرتا ہے اس لیے گیپ آف کمیونیکیشن اس تحریک کو مات دے گا۔

26 نومبر احتجاج کے بعد تحریک انصاف نے کوئی موثر ملک گیر احتجاجی مہم شروع نہیں کی، جس سے پارٹی کے اندر اور باہر اس بات پر سوالات اٹھنے لگے کہ آیا کارکنان آئندہ بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے یا نہیں۔

ڈاکٹر میاں عرفان نے کہا کہ پچھلے دو تین سال سے تحریک انصاف نے احتجاجی کالز دی جس میں دو بار اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی شامل تھا جس کا بانی پی ٹی آئی یا اس کی پارٹی کو کوئی فائدہ عملی طور پر نہیں ہوا ، یہ اب تحریک کی نوعیت پر منحصر ہے کہ یہ کتنے لوگوں کو باہر نکال سکتے ہیں اور حکومتی مزاحمت بھی کراؤڈ کو دیکھ کر ہو گی۔

سیاسی حلقوں میں اس بات پر شدید بحث جاری ہے کہ آیا عمران خان کی اس نئی احتجاجی تحریک سے تحریکِ انصاف کو عوامی سطح پر مثبت فائدہ حاصل ہوگا یا نہیں۔

اس حوالے سے نوجوان صحافی محمد شعیب نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک انڈیا کے نئے کلیش کے بعد حکومت کی پوزیشن عوامی حلقوں میں کافی بہتر ہوئی ہے جس کا نتیجہ ہم ضمنی الیکشنز میں بھی دیکھ رہے دوسرا پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی دیکھنے میں بہتر نظر آ رہی اور تازہ سروے کے مطابق حکومتی سیٹ اپ پر عوامی اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اب پی ٹی آئی کی مقبولیت کا سوال اس تحریک کی نوعیت پر ہو گا۔

سیاسی حلقوں میں یہ سوال شدت سے زیر بحث ہے کہ آیا موجودہ حالات میں عمران خان کی احتجاجی کال کوئی حقیقی سیاسی فائدہ دلوا سکے گی یا یہ صرف پارٹی کے اندرونی اختلافات اور کارکنان کی بکھری ہوئی حالت کو سنبھالنے کی ایک سیاسی چال ہے۔

محمد شعیب کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے دی گئی احتجاجی تحریک کی کال پارٹی کے لیے مؤثر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف اس تحریک کی خود قیادت کا اعلان کیا ہے بلکہ پارٹی رہنماؤں کو دوٹوک پیغام بھی دیا ہے کہ جو پریشر برداشت نہیں کر سکتا، وہ خود کو پیچھے کر لے۔ اس واضح موقف سے نہ صرف قیادت میں سنجیدگی کا پیغام گیا ہے بلکہ اس سے رہنماؤں میں فعالیت بھی بڑھے گی اور وہ اپنی عملی موجودگی اور وابستگی کا ثبوت دینے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:’جیل سے قیادت کروں گا‘, عمران خان کا ملک گیر احتجاج کا اعلان

جہاں ایک طرف عمران خان کی طرف سے احتجاجی کال دی گئی ہے، وہیں پارٹی میں اندرونی اختلافات اور تنظیمی کمزوریاں بھی ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ اس سے پہلے کے احتجاجوں کے نتائج اور موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں پارٹی کو نئی تحریک کے لیے زیادہ سخت چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔

محمد شعیب نے مزید کہا کہ کوئی بھی جماعت یا تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب اس کی قیادت میں اتفاق و اتحاد نہ ہو۔ ماضی میں بھی پی ٹی آئی کے احتجاجات اس لیے مؤثر ثابت نہ ہو سکے کیونکہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی قیادت مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، جس کا براہِ راست نقصان تحریک انصاف کو اٹھانا پڑا۔ اگر موجودہ صورتِ حال میں بھی قیادت کے اندر یہی اختلافات برقرار رہے تو یہ نئی احتجاجی تحریک بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے گی۔

مزید پڑھیں:پی ٹی آئی چھوڑ دو، دباؤ برداشت نہیں کر سکتے، عمران خان کا پارٹی کے رہنماؤں کو پیغام

یہ احتجاجی مہم تحریک انصاف کے لیے ایک نئی امید بھی ہو سکتی ہے اور ایک بڑی سیاسی آزمائش بھی۔ کارکنوں کی شمولیت، پارٹی کی یکجہتی اور ریاستی ردِعمل اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کریں گے۔

Author

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس