Follw Us on:

دفاعی اخراجات، غیرملکی قرضوں کا بوجھ: آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ عام پاکستانی کے لیے کیسا ہوگا؟

زین اختر
زین اختر
Imf
پاکستان کو اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور گرین انرجی کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: گوگل)

آئی ایم ایف کے تیار کردہ بجٹ پر بات کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں کام کرنے والے عامر حسین کا چہرہ مایوسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، تب سے سنتا آ رہا ہوں کہ ملک کا بجٹ خسارے میں جا رہا ہے، لیکن مہنگائی کی شکل میں ہم عوام ہی کیوں قیمت چکائیں؟

ان کی آواز میں وہ درد اورلہجے میں غصہ تھا جو آج کل تقریباً ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ 2025 کے وفاقی بجٹ کے خدوخال پر مبنی جو ابتدائی معلومات سامنے آئی ہیں، ان سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اس بار کا بجٹ بھی عام پاکستانی کے لیے سہارا نہیں بلکہ ایک نیا بوجھ ہوگا۔

آئی ایم ایف کے مطالبات کے تحت بننے والا یہ بجٹ نہ صرف ٹیکسوں میں اضافے کی نوید لا رہا ہے بلکہ سبسڈی میں واضح کمی، توانائی کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ اور دفاعی اخراجات میں نمایاں بڑھوتری جیسے عناصر بھی شامل ہیں۔ اس بجٹ میں جہاں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے، وہیں متوسط اور نچلے طبقے کے لیے کوئی ریلیف دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہیں۔

رواں برس کی معاشی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرضہ264  ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جس میں سے ایک بڑی رقم صرف سود کی ادائیگی میں جا رہی ہے۔ اس وقت ملک کا ہر شہری تقریباً تین لاکھ روپے کا مقروض ہے، چاہے وہ مزدور ہو یا طالب علم۔

Imf ii
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ایک بار پھر ایک سخت امتحان بن کر سامنے آ رہا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

دفاعی اخراجات کے حوالے سے بھی بجٹ میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال میں دفاعی بجٹ 20 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے، جو کہ تقریباً 2.2 ٹریلین روپے کے قریب ہو جائے گا۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک کے تعلیمی، صحت اور سوشل ویلفیئر کے شعبے مسلسل زوال پذیر ہیں۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں بجٹ کی ترجیحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے “پاکستان میٹرز” نے لاہور یونیورسٹی کے ایک ٹیکنالوجی ریسرچر، ڈاکٹر آصف محمود سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ “حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف جا رہی ہے اور ہم ابھی تک اپنے اسکولوں میں کمپیوٹر لیبز مکمل نہیں کر سکے۔ بجٹ میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بہت کم فنڈز مختص کیے جاتے ہیں اور جو کیے جاتے ہیں وہ بھی شفافیت کے بغیر خرچ ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور گرین انرجی کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر بجٹ میں ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے، تو ہم صرف خود کفیل نہیں بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس، بجٹ کا رخ ہمیشہ روایتی شعبوں کی طرف ہی ہوتا ہے۔

اسلام آباد کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے والی شمائلہ قریشی کا”پاکستان میٹرز” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آئی ٹی کے شعبے میں عالمی مارکیٹ کا صرف ایک فیصد بھی حاصل نہیں کر سکے، حالانکہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ اگر بجٹ میں فری لانسنگ اور اسٹارٹ اپس کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور ان کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں، تو ہم نہ صرف نوجوانوں کو روزگار دے سکتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی مستحکم بنا سکتے ہیں۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیک بزنس اونرکراچی، کامران جاوید کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ہمیشہ دفاع، قرضوں کی ادائیگی اور بیوروکریسی کی مراعات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور اصل ترقیاتی کام پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ میں نے اپنی کمپنی کے لیے درآمدی مشینری خریدنے کی کوشش کی، لیکن کسٹم ڈیوٹی اتنی زیادہ ہے کہ کاروبار کا آغاز ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے نظام کا نتیجہ ہے جو عام شہری کے بجائے اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

Imf iii
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ایک بار پھر ایک سخت امتحان بن کر سامنے آ رہا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

2025 کے بجٹ میں جہاں عام آدمی کے لیے روزمرہ کی ضروریات مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے، وہیں موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر الیکٹرانک اشیاء پر ٹیکسز میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تعلیم، آن لائن کام اور ڈیجیٹل کاروبار جیسے شعبے مزید متاثر ہوں گے۔

تنازعہ یہ ہے کہ ایک طرف آئی ایم ایف کا دباؤ ہے، جو چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے خسارے کو کم کرے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھائے، تو دوسری طرف عوام پہلے ہی معاشی دباؤ سے نڈھال ہیں۔ حکومت کے لیے اب ایک نیا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح ان دونوں قوتوں کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔

ماہرین کی رائے ہے کہ اس بحران میں ہی پاکستان کے پاس اصلاحات کا ایک موقع بھی موجود ہے۔ اگر بجٹ کو محض رقم کے لین دین کا دستاویز سمجھنے کے بجائے اسے ایک وژنری پلان کے طور پر ترتیب دیا جائے، تو یہ معیشت کی سمت بدل سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت لائی جائے، امیروں سے ٹیکس وصول کیا جائے اور سرکاری اداروں کی فضول خرچیوں پر قدغن لگائی جائے۔

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ایک بار پھر ایک سخت امتحان بن کر سامنے آ رہا ہے۔ یہ بجٹ صرف اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے عام آدمی کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہونے والا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ عوام کے اندر بےچینی بڑھ رہی ہے اور اگر بجٹ نے انہیں مزید پس ماندگی کی طرف دھکیل دیا، تو اس کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سماجی و سیاسی سطح پر بھی دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

واضح رہے کہ وقت آ گیا ہے کہ حکومتی حلقے اور پالیسی ساز طبقہ اس بجٹ کو عوام دوست بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ کیونکہ اگر عام پاکستانی ہی نظام سے مایوس ہو گیا، تو معیشت کے کسی بھی ماڈل یا منصوبے کی کامیابی محض ایک خواب ہی رہے گی۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس