پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نے الیکٹرانک کرائم سے متعلق پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیکا (دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) میں ترامیم کر کے ‘ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی’ قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار رکھتی اور شکایات پر کسی بھی قسم کے مواد کو حذف یا بلاک کر سکے گی۔
مسودہ کی کاپی اور حکومتی ذرائع سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق ‘جعلی خبروں اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر مبنی نکات کو جلد منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔’
مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈرپا) نامی اتھارٹی قائم کر کے اسے ممنوعہ مواد شیئر کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار دینا تجویز کیا گیا ہے۔
اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومت کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں’ میں تجاویز دے گی۔ تعلیم وتحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
نئے قانون کے تحت پاکستان نے ایک مرتبہ پھر عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ملک میں موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسودہ کے مطابق نئی اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم دے گی اور انہیں پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔
مسودے کے مطابق سوشل میڈیا کی تعریف تبدیل کی جائے گی۔ نئی تعریف کے مطابق سوشل پلیٹ فارمز تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز، ان سے متعلق سروسز فراہم کرنے والے افراد اور ایپس بھی ‘سوشل میڈیا’ کہلائیں گی۔
سوشل میڈیا کی نئی تعریف کے مطابق ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ بھی اسی ڈومین میں تصور کیے جائیں گے۔
ڈرپا کیسے کام کرے گی؟
سوشل میڈیا ریگولیٹر کے طور پر بنائی جانے والی مجوزہ اتھارٹی ایک چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ارکان پر مشتمل ہوگی۔ وفاقی حکومت چیئرپرسن اور تین ارکان کو تین برس کے لیے مقرر کرے گی جب کہ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی آئی بربنائے عہدہ اتھارٹی کے ارکان ہوں گے۔
اتھارٹی کے فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے ہوں گے۔ سربراہ کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کی ہدایت دے سکے، ایسے احکامات کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں میں ’توثیق‘ کرنا ہوگی۔
نئی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ’رجسٹرڈ‘ اور ان کے لیے شرائط وضع کرسکے گی۔ اسے اختیار ہوگا کہ حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کا حکم دے سکے۔
نئے قوانین میں خاص کیا؟
موجودہ قوانین کے تحت صرف وہ کنٹینٹ ‘غیر قانونی مواد’ کہلاتا ہے جو ‘اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف’ ہو۔ پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے تحت 16 مختلف اقسام کے مواد کو اسی ضمن میں شمار کیا جائے گا۔
‘امن عامہ سے متعلق، غیرشائستگی، غیراخلاقی، توہین عدالت یا کسی جرم کے لیے اکسانے والا، فحش، گستاخانہ، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا’ بھی ‘غیرقانونی مواد’ کہلائے گا۔
کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کو بھی ‘غیرقانونی مواد’ شمار کیا جائے گا۔
انٹرنیٹ سے متعلق اعدادوشمار کے پلیٹ فارم اسٹیٹسٹا کے مطابق جنوری 2025 تک پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 11 کروڑ 10 لاکھ ہے۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا تقریبا نصف بنتی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 4 کروڑ ہے۔