پنجاب حکومت نے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے نیا قانون نافذ کردیا، دوسرے صوبوں کی رجسٹرڈ گاڑیوں کو پنجاب میں چلانے کے لیے 120 دنوں کے اندر رجسٹرڈ کروانا لازمی قرار دے دیا گیا، رجسٹریشن نہ کروانے کی صورت میں گاڑی کو بند کر دیا جائے گا۔
پنجاب حکومت کی طرف سے گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی رجسٹریشن کے لیے قانون نافذ کر دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے صوبہ کی رجسٹرڈ گاڑی پنجاب میں نہیں چل سکے گی۔ اگر گاڑی کی رجسٹریشن کراچی،السلام آباد پشاوراور کوئٹہ کی ہے تو پنجاب میں ان رجسٹرڈ گاڑیوں کو 120 دنوں سے زیادہ نہیں چلا سکتے۔ پنجاب میں ان گاڑیوں کو چلانے کے لیے 120 دن کے اندر اندر پنجاب حکومت سے رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
پنجاب کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے مطابق لوگوں میں گاڑیوں کی رجسٹریشن وفاقی درالحکومت اسلام آباد میں کرانے کا زیادہ رحجان بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ سے پنجاب کے خزانے کو ہر سال اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کی شرح پاکستان میں مجموعی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی نسبت سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے سب زیادہ نقصان پنجاب حکومت کو اٹھانا پڑھ رہا ہے۔ پنجاب کے شہری گاڑیوں کی رجسٹریشن میں وفاق کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جس سے گاڑیوں کی خریدوفروخت میں وفاق کی رجسٹریشن والی گاڑیوں کا دوسرے صوبوں کی نسبت 50 ہزار سے ایک لاکھ کا فرق پڑھ جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کے اس فیصلے کا سب سے بڑا مقصد ریونیو کی وصولی اور مارکیٹ میں توازن پیدا کرنا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل( ڈی جی) ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب عمر شیر چٹھہ نے کہا کہ اس فیصلے سے لوگ اس فکر سے آزاد ہو جائیں گے کہ نمبر کہاں کا لگا ہوا ہے؟ ہم نے تمام چور دروازے بند کر دیے ہیں اور اس فیصلے سے سالانہ 8 سے 10 ارب روپے کا اضافی فائدہ صوبے کو ہو گا۔ اس کے علاوہ گاڑیاں جس صوبے کی سڑکیں استعمال کرتی ہیں ٹوکن ٹیکس بھی اسی صوبے میں جمع ہونا چاہیے۔
محکمہ ایکسائز کا کہنا ہے کہ اس قانون کی بدولت گاڑیوں کی رجسٹریشن سے نہ صرف قوانین میں شفافیت آئے گی بلکہ قیمتوں میں توازن بھی ہوگا۔ اس قانون کے تحت دوسرے صوبوں میں رجسٹرڈ گاڑیاں اب پنجاب میں رجسٹرڈ ہوں گی جس سے پنجاب کے ریونیو میں اضافہ ہو گا۔
عوام کے جانب سے اس فیصلے پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ افراد کے مطابق حکومت صرف اپنے خزانے کو بھرنے کے لیے اس فیصلے پر عمل کر رہی ہے اور اس میں عوام کاکوئی مفاد نہیں ہے۔ اس کے برعکس کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوش آئندہ فیصلہ ہے اور اس سے پنجاب حکومت کے خزانہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی قیمتوں میں توازن آئے گا۔
خیال رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اس طرح کے قوانین موجود ہیں جہاں گاڑیوں کی رجسٹریشن ایک ریاست یا صوبے کے قوانین کے مطابق ہوتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جہاں ہر ریاست میں گاڑی کی رجسٹریشن مختلف ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک ریاست سے دوسری ریاست میں منتقل ہوتا ہے تو اسے اپنی گاڑی کو وہاں کے قوانین کے مطابق دوبارہ رجسٹرڈ کروانا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ انڈیا میں بھی یہی نظام رائج ہے جہاں ہر ریاست کی اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن پالیسی ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل ہوتا ہے تو اسے اپنی گاڑی کو دوبارہ رجسٹرڈ کروانا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی گاڑیوں کی رجسٹریشن پالیسیاں مخصوص صوبوں اور ریاستوں کے تحت ہوتی ہیں۔
ان ممالک میں یہ قوانین گاڑیوں کی مارکیٹ کو متوازن رکھنے اور حکومتی خزانے کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں پنجاب حکومت کا یہ اقدام عالمی سطح پر موجود رجسٹریشن قوانین کے مطابق ہے۔ دوسری طرف بعض افراد کا خیال ہے کہ اس قانون سے انہیں پریشانی ہو سکتی ہے کیونکہ اب انہیں اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن دوبارہ کروانا پڑے گی۔
پنجاب حکومت کا یہ نیا قانون ایک اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کا حقیقی اثر کب اور کیسے ظاہر ہو گا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔