Follw Us on:

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا شدید بوجھ، اصل ظالم کون؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

پاکستان میں سب سے زیادہ دباؤ تنخواہ دار طبقے پر ہے جو دیانتداری سے ٹیکس ادا کر رہا ہے، لیکن بدلے میں کسی قسم کا ریلیف یا مراعات حاصل نہیں کر پا رہا۔

Naya Tel کے سی او وہاج سراج نے ’پاکستان میٹرز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ دار غائب ہونے والا طبقہ نہیں، بلکہ مظلوم ترین طبقہ ہے۔ اس پر ظلم در ظلم یہ ہے کہ اسے کسی قسم کا کریڈٹ یا ریلیف نہیں ملتا۔

بزنس مین کو 35 فیصد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے، مگر وہ اپنے اخراجات مثلاً کرایہ، بجلی، اور دیگر کٹوا لیتا ہے۔ لیکن تنخواہ دار طبقہ تو اپنے بچوں کی تعلیم، میڈیکل، کرایہ تک کو ایڈجسٹ نہیں کر سکتا اور اسے گراس انکم پر ہی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔”

وہاج سراج نے اعداد و شمار کے ساتھ وضاحت کی کہ صرف تنخواہ دار طبقے نے اس سال 500 ارب روپے ٹیکس دیا، جب کہ ریٹیل سیکٹر ، جو پاکستان کی معیشت کا 18 فیصد سے زائد ہے ،بمشکل 20 ملین روپے ٹیکس دیتا ہے۔ انہوں نے زراعت اور ایکسپورٹ کے شعبے کی بھی نشاندہی کی، جو اپنی وسعت کے باوجود ٹیکس نیٹ میں انتہائی کم حصہ ڈالتے ہیں۔

Budget

ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا میں جو کمپلائنٹ سیکٹر ہوتا ہے، اسے انسنٹو (مراعات) دیا جاتا ہے اور نان کمپلائنٹ کو پنش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں الٹا نظام ہے، انہوں نے تجویز دی کہ کم از کم آمدن کی حد کو ایک لاکھ روپے ماہانہ کیا جائے، 10 فیصد سرچارج ختم کیا جائے اور 2023 کی ٹیکس سلیب بحال کی ۔

انہوں نے ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر بھی سوال اٹھایا جو عام شہریوں سے بجلی، انٹرنیٹ اور دیگر خدمات کے ذریعے لیے جا رہے ہیں۔ “جب میں گروسری کرتا ہوں تو ریٹیلر تو ٹیکس نہیں دے رہا، میں دے رہا ہوں۔ انٹرنیٹ بل پر بھی 15-19 فیصد تک جی ایس ٹی ہم ادا کر رہے ہیں۔”

وہاج سراج نے حکومت کو تجویز دی کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دیا جائے، اور ان پر ٹیکس کی شرح کم رکھی جائے تاکہ لوگ بلیک اکانومی سے نکل کر فارمل اکانومی میں آئیں۔ ان کا کہنا تھا، “جو ٹیکس دے رہا ہے، اسے انعام ملے، اور جو نہیں دے رہا، اسے پکڑا جائے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس