امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ تنظیم جی ایچ ایف نے جمعرات کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اپنے دو امدادی مراکز دوبارہ کھول دیے، جہاں 26 ٹرکوں پر مشتمل اشد ضروری خوراک تقسیم کی گئی۔
عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق جی ایچ ایف نے ایک روز قبل شدید فائرنگ کے واقعات کے بعد امدادی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں، جسے اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے غیر جانبداری کے فقدان پر سخت تنقید کا سامنا ہے، پچھلے ہفتے سے امداد فراہم کر رہی ہے۔
جی ایچ ایف کے عبوری ڈائریکٹر جان ایکری کا کہنا ہے کہ تنظیم جلد شمالی غزہ میں بھی امدادی مراکز کھولنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ امداد کی فراہمی محفوظ اور مؤثر بنائی جا سکے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 2.3 ملین آبادی پر مشتمل غزہ قحط کے دہانے پر ہے، جب کہ بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ فوری علاج اور خوراک کی عدم فراہمی ہزاروں بچوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
اس دوران اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے دو دوہری شہریت رکھنے والے اسرائیلی-امریکی شہریوں، گاڈی حاجی اور ان کی اہلیہ جوڈی وائن اسٹائن حاجی کی لاشیں بازیاب کر لی ہیں۔ دونوں کو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں قتل کر کے غزہ منتقل کیا گیا تھا۔
جمعرات کو غزہ بھر میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 20 فلسطینی جاں بحق ہوئے، جن میں شمالی غزہ کے ایک اسپتال میں چار صحافی بھی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے اسلامی جہاد کے ایک کمانڈر کو نشانہ بنایا تھا۔
حماس کے زیر انتظام میڈیا دفتر کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 225 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

بدھ کے روز امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ “فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی” کی قرارداد کو ویٹو کر دیا، جب کہ 14 دیگر ارکان نے قرارداد کی حمایت کی تھی۔
جی ایچ ایف پر الزام ہے کہ اس کا امدادی نظام اسرائیلی فوج کے زیر اثر ہے، جس کے باعث فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اب تک 84 لاکھ سے زائد کھانے کے پیکٹ تقسیم کر چکی ہے۔
اسرائیلی اپوزیشن رہنما آویگڈور لائبرمین نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ رفح میں حماس مخالف فلسطینی ملیشیا کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ہتھیار یاسر ابو شباب نامی مقامی رہنما کو دیے گئے، جو امدادی قافلوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ ابو شباب “قبضے کے ساتھ تعاون” کے الزام میں مطلوب ہیں۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں حماس نے 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی شروع کی۔ غزہ کی صحت حکام کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں میں 54,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر کے مسلمان جمعرات سے عید الاضحی منا رہے ہیں، مگر غزہ میں دو سالہ محاصرے اور جنگ کے باعث خوراک کی شدید قلت ہے، جس نے عید کی خوشیوں کو ماند کر دیا ہے۔