بجٹ 2025-26 کی آمد آمد ہے اور حسبِ روایت ملک بھر کے مختلف شعبہ جات اس بات پر نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں کہ آنے والا بجٹ ان کے لیے ریلیف لائے گا یا مزید بوجھ؟۔
ان ہی طبقات میں سے ایک اہم طبقہ رئیل سٹیٹ سے وابستہ افراد کا ہے،جن میں پلاٹ مالکان،تعمیراتی کمپنیاں،ایجنٹس،سرمایہ کار اور اوورسیز پاکستانی شامل ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس بزنس سے وابستہ افراد اور تنظیموں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے براہ راست اپیل کی ہے کہ رئیل سٹیٹ پر عائد مجوزہ ٹیکسوں پر نظرثانی کی جائے۔
یہ اپیل نہ صرف بروقت بلکہ ایک گہرے معاشی اور سماجی پس منظر کی حامل بھی ہے،جسے نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق بجٹ 2025-26 میں رئیل سٹیٹ سیکٹر پر مختلف اقسام کے ٹیکسز عائد کیے جا رہے ہیں،جن میں سیکشن 7E کا نفاذ،فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی(FED)،ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ،سلیب سسٹم،درمیانے طبقے پر 5 فیصد ٹیکس کی تجویز،اوورسیز پاکستانیوں کی پراپرٹی پر لاگت کی بنیاد پر ٹیکس اور ٹیکس وصولی کا پیچیدہ نظام شامل ہیں۔
ان تمام تجاویز کا بغور جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف معاشی بلکہ سماجی و سیاسی نتائج بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں سیکشن 7E کی،جو کہ اس وقت رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے لیے سب سے زیادہ باعث اضطراب ہے،اس قانون کے تحت ایک غیر حقیقی اور تصوراتی کرایہ کو بنیاد بنا کر ایک مخصوص شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے، جو کہ بنیادی طور پر انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے۔
ایک ایسا شخص جو کسی پلاٹ یا جائیداد کو صرف اپنی ذاتی رہائش یا مستقبل کی سرمایہ کاری کے طور پر رکھتا ہے اور اس سے کوئی آمدن حاصل نہیں کر رہا،اس پر بھی فرضی آمدن کی بنیاد پر ٹیکس لاگو کر دینا معاشی ظلم سے کم نہیں۔
دنیا کے کسی مہذب ملک میں اس طرح کا قانون موجود نہیں،جہاں فرضی آمدن پر حقیقی ٹیکس وصول کیا جائے،اس قانون سے نہ صرف کاروبار میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے بلکہ لوگوں نے جائیداد کی خرید و فروخت روک دی ہے،جس کا براہِ راست اثر معیشت کے دیگر شعبہ جات پر بھی پڑا ہے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کا اطلاق بھی رئیل اسٹیٹ پر ایک غیر روایتی اور ناعادلانہ قدم ہے،یہ ٹیکس عام طور پر تمباکو،مشروبات اور لگژری آئٹمز پر عائد کیا جاتا ہے تاکہ ان کے استعمال کو روکا جا سکے یا ریونیو بڑھایا جا سکے مگر جائیداد پر اس ٹیکس کا نفاذ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کو ریونیو بڑھانے کا کوئی اور ذریعہ نظر نہیں آ رہا،یہ اقدام نہ صرف معاشی منطق کے خلاف ہے بلکہ قانون سازی کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
ود ہولڈنگ ٹیکس کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے،بجٹ 2025-26 میں تجویز دی گئی ہے کہ سیکشن 236C سے 236K کے تحت ٹرانزیکشنز پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو 1 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کر دیا جائے۔
اس اقدام سے نہ صرف جائیداد کی خرید و فروخت مہنگی ہو جائے گی بلکہ خریدار و فروخت کنندہ دونوں کو اضافی مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑے اٹیکس کا سب سے زیادہ اثر درمیانے طبقے پر پڑے گا،جو پہلے ہی مہنگائی،بجلی و گیس کے بلز اور بنیادی ضروریات کی قلت سے دوچار ہے۔
سلیب سسٹم کی تجاویز بھی سوالیہ نشان ہیں۔۔۔اگر سلیب سسٹم کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جائے تو یہ ایک بہتر قدم ہو سکتا ہے،بشرطیکہ اس میں آمدن اور خریداری کی گنجائش کو سامنے رکھا جائے مگر اگر یہ نظام بھی اس طرح بنایا گیا کہ ہر شخص کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے تو اس سے رئیل سٹیٹ مارکیٹ مزید سکڑ جائے گی اور سرمایہ کاری کا بہاو بند ہو جائے گا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کم آمدن اور درمیانے طبقے کو بھی 5 فیصد ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔۔۔ایسے طبقے جو سالوں کی محنت کے بعد کوئی پلاٹ خرید پاتے ہیں یا اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا مکان بنانے کا خواب دیکھتے ہیں،ان پر اس طرح کا بوجھ ڈالنا ایک غیر انسانی فعل ہو گا۔
ایسے اقدامات نہ صرف معاشی طور پر تباہ کن ہیں بلکہ یہ عوامی بے چینی اور حکومت سے بد اعتمادی کو بڑھا سکتے ہیں،اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پراپرٹی خریداری پر لاگت کی بنیاد پر ٹیکس کی تجویز ایک اور افسوسناک پہلو ہے۔
وہ پاکستانی جو ملک سے باہر رہ کر سخت محنت سے پیسہ کماتے ہیں اور پھر اسے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے لاتے ہیں،ان پر اس طرح کا ٹیکس لگانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ان کی حب الوطنی پر طمانچہ ہے،اوورسیز پاکستانی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان سے اربوں ڈالرز کی ترسیلات زر ہر سال آتی ہیں،اگر ان کے لیے سرمایہ کاری کو مشکل بنا دیا جائے گا تو وہ دوسرے ممالک کا رخ کر لیں گے اور پاکستان اس قیمتی زرِ مبادلہ سے محروم ہو جائے گا،سب سے اہم نکتہ ٹیکس نظام کی پیچیدگی اور غیر منطقی ساخت ہے،پاکستان کا ٹیکس سسٹم پہلے ہی عام آدمی کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
متعدد فارم،اقسام،ٹریشولڈز اور ریٹز کے باعث بیشتر لوگ یا تو ٹیکس فائلنگ سے گھبراتے ہیں یا اسے چھوڑ دیتے ہیں،اگر اس نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیا گیا تو نہ صرف کرپشن میں اضافہ ہو گا بلکہ لوگ قانونی ذرائع سے کترانے لگیں گے۔
رئیل اسٹیٹ جیسے شعبے کو ترقی دینے کے لیے سادہ،شفاف اور جامع نظام کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسے قوانین جو سرمایہ کار کو خوفزدہ کر دیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت آخر اس شعبے سے اتنا ریونیو کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟بلاشبہ،رئیل سٹیٹ ایک بڑا اور منافع بخش شعبہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شعبے کی ترقی سے درجنوں دیگر صنعتیں بھی جڑی ہوئی ہیں جیسے کہ سیمنٹ،سریا،لکڑی،فرنیچر،الیکٹریکل،پلمبنگ،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی ساز و سامان،اگر رئیل سٹیٹ کی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں تو اس کا براہِ راست اثر ان صنعتوں پر پڑتا ہے اور یوں ہزاروں مزدور بے روزگار ہو جاتے ہیں،ایک ہی بار 50 سے زائد صنعتیں مفلوج ہو جائیں گی،مزید یہ کہ رئیل سٹیٹ نہ صرف سرمایہ کاری کا محفوظ ذریعہ ہے بلکہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے مالی تحفظ کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔
لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی پلاٹ یا مکان کی صورت میں محفوظ کرتے ہیں تاکہ بڑھاپے میں کوئی سہارا ہو،اگر اس شعبے کو مزید ٹیکسز کے ذریعے محدود کیا گیا تو لوگوں کا اعتماد اس سرمایہ کاری سے اٹھ جائے گا،رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کی اپیل نہ صرف ایک پیشہ ورانہ فریاد ہے بلکہ اس میں ایک مخلصانہ جذبہ بھی کار فرما ہے کہ حکومت اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کریں گے جو نہ صرف معیشت کی بہتری کا باعث بنیں بلکہ عوام کے لیے بھی قابل قبول ہوں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے نئے ٹیکس لگانے کی بجائے موجودہ نظام کو بہتر بنایا جائے،نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور کرپشن کو ختم کر کے نظام کو شفاف بنایا جائے،عوام،سرمایہ کار اور اوورسیز پاکستانی،سب اس ملک کی ترقی میں برابر کے شریک ہیں۔
اگر ان پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کا اعتماد حاصل کیا جائے تو یہ ملک ترقی کی ان بلندیوں کو چھو سکتا ہے جس کا خواب قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے دیکھا تھا۔