Follw Us on:

بجٹ کی آمد: پاکستان کو ‘ٹارچ’ کی نہیں، ‘پاور ہاؤس’ کی ضرورت ہے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Inflation
کہ 3 ڈالر روزانہ سے بھی کم پر جینے والے لوگوں کی تعداد 3 کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ (فوٹو: ایکس)

تصور کریں کہ آپ ایک بہت بڑے، بالکل اندھیرے ہال میں کھڑے ہیں اور آپ کے پاس صرف ایک چھوٹا سا ٹارچ ہے۔ آپ صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جو بالکل آپ کے سامنے ہے۔ یہی حال پاکستان کے پالیسی سازوں کا ہے، جو بہت محدود سوچ کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور اردگرد پھیلی ہوئی عوام کی مشکلات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کی 44.7 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ 70 لاکھ لوگ، عالمی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ لکیر فی دن 4.2 ڈالر ہے، جو پاکستانی روپوں میں تقریباً 1,200 روپے بنتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ 3 ڈالر روزانہ سے بھی کم پر جینے والے لوگوں کی تعداد 3 کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔

یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ لاکھوں زندگیاں ہیں جو بھوک، بے بسی اور محرومی کی تکلیف سہہ رہی ہیں۔ لیکن حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایک گھرانہ 37,000 روپے ماہانہ میں گزارا کر سکتا ہے۔ آج کی مہنگائی میں یہ بات نہ صرف ناقابلِ یقین ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ جب حکمران زمینی حقیقتوں سے ہٹ کر لوگوں کی بنیادی ضروریات کا اندازہ لگاتے ہیں تو وہ عوام اور اقتدار کے درمیان خلیج کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

اصل پاکستان میں حالات ایسے ہیں کہ سفید پوش لوگ، جو کبھی مڈل کلاس کی پہچان ہوا کرتے تھے، اب لنگر خانوں کی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی خاموش عزت کو بھوک کے شور نے دبا دیا ہے۔ بزرگ بھوک سے مر رہے ہیں، جیسے حال ہی میں بہاولپور میں افسوسناک واقعہ پیش آیا۔

کچھ لوگ اسے معیشت کی حقیقت کہیں گے، لیکن دراصل یہ ہمدردی، قیادت اور سیاسی ارادے کی ناکامی ہے۔ خوش قسمتی سے سول سوسائٹی نے عوام کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اپنی رپورٹ ‘زندگی سے وقار تک: ایک زندہ تنخواہ کی ضرورت’ میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صرف کم سے کم تنخواہ نہ دے، بلکہ ’زندہ تنخواہ‘ کا نظام اپنائے۔

یہ فرق بہت اہم ہے۔ کم سے کم تنخواہ اکثر بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہتی ہے، جبکہ زندہ تنخواہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پورا وقت کام کرے تو وہ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکے – یعنی اسے کھانا، رہائش، علاج، تعلیم اور بہتر مستقبل کا خواب پورا کرنے کا موقع ملے۔ HRCP کے مطابق، ایک چھ افراد کے خاندان کے لیے کم از کم 75,000 روپے ماہانہ ضروری ہیں۔

اب جب کہ وفاقی بجٹ آنے والا ہے، صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس چیلنج کا سامنا کرے گی یا پھر ہمیشہ کی طرح صرف کاروباری طبقے کی خوشنودی کی فکر کرے گی، جسے صرف اپنے منافع کی پڑی ہے؟

مزدوروں کے حقوق کے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے مالکان آسانی سے تنخواہیں کم رکھ کر ورکرز کا استحصال کرتے ہیں۔ اگر اصل اصلاحات نہ ہوئیں تو بجٹ میں تنخواہوں کا کوئی بھی اضافہ صرف دکھاوا ہی رہے گا۔

ہم اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ غربت اور مایوسی نے نوجوانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کریں، چاہے انہیں اپنی جان کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ راستہ خطرناک ہے، لیکن انہیں یہاں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ سچ یہ ہے کہ اگر انہیں بھوک نہ مارے، تو ناامیدی ضرور مار دے گی۔

پاکستان کو اب ایک اور چھوٹے ٹارچ کی نہیں، بلکہ ایک نئے ’پاور سورس‘ کی ضرورت ہے – ایک ایسی حکومت جو اپنے عوام کو پوری روشنی میں دیکھے اور ان کی بقا ہی نہیں، بلکہ ان کے وقار کے لیے قانون بنائے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس