سعودی عرب کی سرمایہ کاری مائننگ فنڈ پاکستان کے ریکوڈک پراجیکٹ میں حصص خریدنے کے لیے مکمل تیار ہےاور پاکستان کے 9 بلین ڈالر مالیت کے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب 10 سے 20 فیصد حصص خریدے گا۔
سعودی نیوز چینل شفق نیوز کے مطابق منارا منزلز کمپنی پاکستان کے ریکوڈک پروجیکٹ میں حصص خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔مائننگ فنڈ کمپنی کا ایک اہم شیئر ہولڈر پاکستانی حکومت سے حصص خریدے گا، جو کہ کان کا 25 فیصد حصہ رکھتی ہے، جس کی مالیت لگائے گئے تخمینے کے مطابق 500ملین ڈالر سے 1 بلین ڈالر تک ہے۔ اس معاہدے میں مستقبل میں پروڈکشن آف ٹیک کا معاہدہ بھی شامل ہوگا۔
واضح رہے کہ ریکوڈک پروجیکٹ کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن کی طرف سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ایک بار مکمل ہونے کے بعدیہ دنیا کی سب سے بڑی تانبے اور سونے کی کانوں میں سے ایک بن جائے گی، جس کی تخمینی ترقیاتی لاگت 9 بلین امریکی ڈالرہے۔ بیرک کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ افغان اور ایرانی سرحدوں کے قریب مغربی بلوچستان میں واقع اس کان سے دو فیز پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد سالانہ 400,000 ٹن تانبا اور 500,000 اونس سونا پیدا ہوگا۔

دوسری جانب دسمبر 2024 میں پاکستانی حکومت نے اس کان کے 15 فیصد حصص سعودی عرب کو 540 ملین ڈالر میں فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ بیرک گولڈ کارپوریشن کے زیر کنٹرول تانبے اور سونے کی کان کنی کے پراجیکٹ میں حصص کی فروخت کا معاہدہ ابھی مہینوں دور ہے۔
خیال رہے کہ سعودی حکومت نے پہلے ہی ریکوڈک پراجیکٹ میں پاکستانی حکومت کے اقلیتی حصص کو منارا منرلز انویسٹمنٹ کمپنی کے ذریعے خریدنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، جو کہ خودمختار دولت فنڈ کی حمایت یافتہ سعودی فرم ہے، جس کی مالیت کم از کم 1 بلین ڈالر ہے۔دوسری جانب ریاض میں ایک انٹرویو میں وزیرِ پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ بڑے بڑےنامور ادارے ان معدنیات کو حاصل کرنا چاہیں گے اور پھر انہیں پروسیسنگ کے لیے کہیں اور منتقل کرنا چاہیں گے، جب کہ بعض لوگ پراسیسنگ پاکستان میں کرنا چاہیں گے، جس کی وجہ سے پراجیکٹ میں تھوڑا بہت تناؤ موجود ہے۔
واضح رہے کہ ریکوڈک پراجیکٹ افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے میں 2028 میں پیداوار شروع کرنے کا ہدف ہے، جس میں بیرک منصوبے کا 50 فیصد مالک ہے، جب کہ بقیہ ملکیت پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہے۔
ایک سابقہ انٹرویو میں سی ای او مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے گولڈ پروڈیوسر نے کہا کہ وہ سعودیوں کے ساتھ پاکستانی حکومت کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرے گا، جبکہ بیرک اس منصوبے میں اپنی ایکویٹی کو کمزور نہیں کرے گا۔قرض دہندگان مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ کان کے ابتدائی مرحلے پر 4.5 بلین ڈالر لاگت آئے گی اور اس کے لیے 1.5 بلین ڈالر بیرک کی طرف سے فراہم کیے جائیں گے، جو کہ پاکستان سے اتنی ہی لیکن قدرے کم رقم ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ قرضوں کے کنسورشیم سے ملے گا جس میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مغربی ممالک شامل ہوں گے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر صنعت و معدنیات بندر الخورائف نے تصدیق کی کہ منارا گزشتہ منگل کو فنانشل ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریکوڈک معاہدے پر غور کر رہی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس سے مملکت کی دھاتوں کی مانگ کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس ( سابقہ ٹوئٹر) پر صارفین کی جانب سے اس منصوبے پر ملا جلا رجحان رہا، کسی نے منصوبے کو سراہا تو کسی نے اسے تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ایک صارف نے لکھا کہ ا س اہم سرمایہ کاری سے ممکنہ طور پر بیرون ملک پاکستان کی معیشت اور کان کنی کے شعبے کو بہت فروغ ملے گا۔ اس کے ساتھ ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ سعودی عرب کی طرف سے ایک بڑا اقدام ہے، امید کرتے ہیں یہ ہمارے لیے کچھ اچھے احساسات لائے گا۔

دوسری جانب ایک صارف نے لکھا کہ حکومت کو اس میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے، معدنیات کو پاکستان میں ہمارے نجی شعبے کے ذریعہ پروسیس کیا جانا چاہیے، اگر ہمارے پاس ٹیکنالوجی کی کمی ہے تو شاید غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے مقامی طور پر اور برآمد کے بجائے ویلیو ایڈیشن کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ایک اور صارف نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں ریفائننگ قائم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہی معاہدہ کیا گیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کی معیشیت پر کیا اثر پڑتا ہے اور کیا اس منصوبے سے غریب عوام کا کچھ فائدہ ہوگا یا ملکی سطح پر بھی اس کے مفاد اٹھائے جائیں گے،خیر یہ تو اب وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔