Follw Us on:

 انسانی حقوق کے کارکنوں کا اغوا: ’خاموش ممالک بھی اسرائیلی دہشت گردی سے نہیں بچ پائیں گے‘

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 06 10 at 12.26.09 am
یہ مشن مکمل طور پر پرامن اور انسانی ہمدردی پر مبنی تھا۔ (فوٹو: فائل)

ماحولیاتی تبدیلی کی عالمی علامت گریٹا تھنبرگ جب انسانی ہمدردی کے تحت فریڈم فلوٹیلا کے ساتھ غزہ کے محصور شہریوں کے لیے امدادی سامان لے کر روانہ ہوئیں تو شاید انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کا یہ سفر اتنے بڑے سیاسی تنازع کا باعث بن جائے گا۔

اسرائیلی افواج نے اس کشتی کو بحیرہ روم میں روک کر اپنے قبضے میں لے لیا اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے واضح کیا کہ ان کارکنوں کو ”حماس نواز“ تصور کیا جا رہا ہے۔ کشتی پر سوار تمام افراد کو اسرائیل پہنچنے پر 7 اکتوبر کے حملے کی ویڈیوز دکھائی جائیں گی تاکہ انہیں بتایا جا سکے کہ اسرائیل کیوں اپنا ”حقِ دفاع“ استعمال کر رہا ہے۔

یہ واقعہ نہ صرف اسرائیل اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے درمیان کشیدگی کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ اس سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا انسانی ہمدردی کی کاوشوں کو سیاسی بیانیے کے تحت دبایا جا رہا ہے؟

ایک طرف گریٹا تھنبرگ جیسے کارکنوں کا مؤقف ہے کہ وہ صرف انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کر رہے ہیں تو دوسری طرف اسرائیلی حکومت کا اصرار ہے کہ یہ سرگرمیاں درحقیقت حماس کی پشت پناہی کے مترادف ہیں۔

Web image template (21)
یہ مناسب ہے کہ گریٹا تھنبرگ اور ان جیسے دیگر افراد کو دکھایا جائے۔ (فوٹو: فائل)

واضح رہے کہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، جو فلسطین خصوصاً غزہ کی پٹی میں انسانی بحران کے پیش نظر امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ رواں ہفتے بھی اسی تنظیم کے تحت امدادی سامان سے بھری کشتی ”میڈلین“ سویڈن سے روانہ ہوئی، جس پر 12 کارکن سوار تھے۔ جن کا تعلق برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، ترکی اور سویڈن سے تھا، جن میں سب سے نمایاں نام گریٹا تھنبرگ کا ہے، جو دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف آواز بلند کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔

کولیشن کے مطابق یہ مشن مکمل طور پر پرامن اور انسانی ہمدردی پر مبنی تھا، جس کا مقصد صرف جنگ زدہ شہریوں کو مدد فراہم کرنا تھا، جب کہ اسرائیل نے اس مشن کو سیکیورٹی خطرہ قرار دیا اور کشتی کو غزہ کی بجائے اشدود بندرگاہ کی جانب موڑ کر اپنے قبضے میں لے لیا۔

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حماس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب ہے کہ گریٹا تھنبرگ اور ان جیسے دیگر افراد کو دکھایا جائے کہ حماس نے 7 اکتوبر کو خواتین، بچوں اور بزرگوں پر کیسے ظلم کیے۔ یہ افراد جس مشن پر ہیں، وہ دراصل اسرائیل کے دشمنوں کو سہولت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

خیال رہے کہ یہ وہی 7 اکتوبر کا واقعہ ہے، جس میں حماس کے حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی شہری ہلاک اور 250 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔ اسرائیل اس واقعے کو اپنی دفاعی پالیسی کا جواز بناتا رہا ہے اور اس کے بعد سے غزہ پر جاری حملوں میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

Web image template (20)
اسرائیلی فوجیوں نے زبردستی کشتی پر قبضہ کیا اور انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔ (فوٹو: فائل)

دوسری جانب کشتی پر سوار کارکنوں اور فریڈم فلوٹیلا کولیشن کا کہنا ہے کہ ان کی سرگرمیاں بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں کے مطابق ہیں۔ کولیشن کے ایک بیان میں کہا گیاکہ ہم صرف خوراک، دوائیں اور بنیادی امدادی سامان لے جا رہے تھے۔ ہم پر ‘اغوا’ کا الزام لگا کر اسرائیل نے انسانی ہمدردی کو جرم بنا دیا ہے۔

کولیشن نے ٹیلی گرام پر ایک تصویر بھی جاری کی، جس میں کشتی پر سوار افراد کو ہاتھ اٹھائے اور لائف جیکٹس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے زبردستی کشتی پر قبضہ کیا اور انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔

گریٹا تھنبرگ کی شرکت نے اس معاملے کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ محض 15 سال کی عمر میں اسکول کے بجائے سویڈن کی پارلیمان کے باہر تنہا احتجاج سے آغاز کرنے والی یہ لڑکی اب اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی فورمز پر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف آواز اٹھا چکی ہے۔

ان کی جانب سے غزہ کے عوام کے لیے آواز بلند کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی بحران صرف علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی اخلاقی ذمہ داری بن چکا ہے۔ ان کے خلاف اسرائیلی الزامات اور “حماس نوازی” کا دعویٰ کئی حلقوں میں شدید تنقید کا باعث بن رہا ہے۔

سویڈن کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں کی حفاظت پر زور دیا ہے، جب کہ ترکی، جرمنی اور اسپین نے اسرائیل سے وضاحت طلب کی ہے۔ اقوام متحدہ نے کشتی پر سوار تمام افراد کی سلامتی کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر کہا ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی عروج پر ہے، غزہ امدادی سامان لے جانے والی کشتی قبضے میں لے کر امدادی کارکنان کو اغوا کرلیا ہے۔ ناجائز ریاست نے یہ کارروائی اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے بین الاقوامی پانیوں میں کی، جو طاقتیں آج امریکی سرپرستی میں جاری اسرائیلی دہشت گردی پر خاموش ہیں یاد رکھیں کل یہ دہشت گرد ریاست انہیں بھی نہیں بخشے گی۔ اسرائیل صرف فلسطین کا مالک نہیں پورے مشرق وسطیٰ کا چودھری بننا چاہتا ہے۔

فلسطینی وزارت خارجہ نے اسرائیلی اقدام کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل امداد کو روک کر شہریوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی خبردار کر چکی ہیں کہ غزہ میں قحط، ادویات کی کمی اور طبی سہولیات کی کمیابی سنگین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث نہ صرف امداد رُک گئی ہے بلکہ اسپتالوں میں بھی ایندھن ختم ہو چکا ہے۔

اس صورتحال میں فریڈم فلوٹیلا جیسے مشنز ہی ایک امید کی کرن سمجھے جا رہے تھے، جنہیں اب سیاسی تنازع کا شکار بنا کر مزید بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔

یہ واقعہ ایک بار پھر عالمی برادری کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا انسانی ہمدردی کو بھی اب سیاسی زاویے سے جانچا جائے گا؟ کیا اسرائیل جیسے ممالک کو یہ اختیار ہے کہ وہ بین الاقوامی کارکنوں پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا کر انہیں روک دیں؟یا پھر یہ وقت ہے کہ دنیا انسانی بنیادوں پر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرے، جہاں انسانیت کو سیاسی مفادات پر فوقیت دی جائے؟

Web image template (22)
اسرائیلی دہشت گردی عروج پر ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیل کا گریٹا تھنبرگ اور دیگر کارکنوں کو روکنا، ان پر الزامات عائد کرنا اور سات اکتوبر کی ویڈیوز دکھانے کا اعلان کرنا، یہ سب اقدام جہاں ایک ملک کی سیکیورٹی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں، وہیں یہ انسانی ہمدردی کی عالمی کوششوں پر سوالیہ نشان بھی بن گئے ہیں۔

ہر عام شہری کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ کیا یہ کارکن واقعی خطرہ ہیں یا پھر وہ آئینہ ہیں جو دنیا کو اس کے ضمیر کا عکس دکھا رہے ہیں؟فی الحال عالمی ضمیر اس پر خاموش ہے، مگر کشتی، بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کے باوجود سوالات کی لہروں پر ہچکولے کھا رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس