صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شہر میں مزید نیشنل گارڈز کے پہنچنے تک تقریباً 700 فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
ریاست کیلی فورنیا نے اس فیصلے کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیشنل گارڈ اور میرینز کی تعیناتی وفاقی قانون اور ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ صدر ٹرمپ نے سنیچر کو نیشنل گارڈز کی تعیناتی کا حکم دیا تھا، جس کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔
سنیچر کو جنوبی کیلی فورنیا میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف پولیس کارروائی کے بعد مظاہرے شروع ہوئے، جنہیں قابو میں کرنے کے لیے نیشنل گارڈز کو متحرک کیا گیا۔ مظاہرے مسلسل چار دن سے جاری ہیں، جس کے بعد اب میرینز کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ میرینز، امریکی بحری فوج کا حصہ ہوتے ہیں اور براہِ راست محکمہ دفاع کے تحت کام کرتے ہیں۔

پیر کی رات کو پولیس نے وفاقی حراستی مرکز کے باہر جمع مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ وہاں بڑی تعداد میں نیشنل گارڈز بھی تعینات تھے، کیونکہ اس مرکز میں غیر قانونی تارکین کو رکھا گیا ہے۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور گولیاں بھی چلائیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے بتایا کہ صدر نے ایک صدارتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت 2,000 نیشنل گارڈز تعینات کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف تشدد کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔
نیشنل گارڈز عام طور پر قدرتی آفات کے دوران مدد کے لیے بلائے جاتے ہیں، شہری بدامنی میں ان کی تعیناتی کم ہوتی ہے۔ آخری بار انہیں 2020 میں جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد لاس اینجلس میں تعینات کیا گیا تھا۔
کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل گارڈز کی تعیناتی سے حالات مزید خراب ہوں گے اور عوام کا حکومتی اداروں پر اعتماد کم ہو گا۔