وفاقی بجٹ 2025-26 پیش ہونے کے بعد سے ہی عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ ہمارے ماہانہ اخراجات پر اس بجٹ کا کیا اثر پڑے گا؟ اگرچہ بجٹ میں دفاع، پنشن اور سبسڈی کے لیے بھاری رقوم مختص کی گئی ہیں، لیکن روزمرہ استعمال کی اشیاء، توانائی، خوراک اور تعلیم جیسے شعبے عوام کی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس بجٹ میں کیے گئے ٹیکس اقدامات اور سبسڈی میں کٹوتی سے لگتا ہے کہ عام صارف کی جیب پر خاصا بوجھ پڑنے والا ہے۔
بجٹ میں توانائی کے شعبے کے لیے سبسڈی میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق بجلی کے شعبے کے لیے دی جانے والی سبسڈی پچھلے سال کے مقابلے میں 25 فیصد کم کر دی گئی ہے۔ گردشی قرضہ 3.1 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے، جس کی واپسی کے لیے نیپرا کو ٹیرف بڑھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور اضافی سرچارجز کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، جو آئندہ مہینوں میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا، تو بجلی مزید مہنگی ہو سکتی ہے۔
اشیائے خورونوش کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں جزوی تبدیلی کی گئی ہے، خاص طور پر پام آئل اور گندم کی درآمد پر نیا ریگولیٹری ڈیوٹی لگنے سے آٹے، تیل اور چینی کی قیمتوں میں 10 سے 15 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔

پنجاب اور سندھ میں صوبائی حکومتیں اب تک گندم پر سبسڈی دیتی رہی ہیں، لیکن موجودہ مالی مشکلات کے پیش نظر امکان ہے کہ یہ سبسڈیز محدود ہو جائیں۔ اس سے براہِ راست روٹی، آٹے اور دیگر غذائی اشیاء کی قیمتوں پر اثر پڑے گا
پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے فی لیٹر تک اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ اگرچہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت مستحکم ہے، لیکن روپے کی قدر میں کمی اور لیوی کے اضافے سے پیٹرول کی قیمت میں 15-20 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے۔
گھریلو گیس کے نرخوں میں بھی تبدیلی متوقع ہے۔ حکومت نے ایل این جی کی درآمد کے اخراجات پورے کرنے کے لیے نئے ٹیرف سلیب متعارف کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ سردیوں میں گیس کے بلوں میں واضح اضافہ ممکن ہے۔
نجی اسکولوں اور کالجوں پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، لیکن اسٹیشنری اور نصابی کتب پر سیلز ٹیکس میں معمولی اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جو مجموعی تعلیمی اخراجات میں اضافہ کرے گا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے، جس سے یونیورسٹیوں کو فیسوں میں اضافے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیوں کے ہاسٹل، ٹرانسپورٹ اور لیب فیسز میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ماہرِ معاشیات محمد شفاقت نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ
س بجٹ کے اثرات مہنگائی کی نئی لہر لا سکتے ہیں، بالخصوص توانائی، خوراک اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ ٹیکسز اور کم سبسڈی کی وجہ سے شہری اور دیہی دونوں طبقات پر مہنگائی کا دباؤ بڑھنے والا ہے۔
محمد شفاقت نے کہا ہے کہ پیٹرولیم لیوی میں اضافہ اور بجلی کے شعبے کے لیے سبسڈی میں کٹوتی کا براہ راست اثر صارفین پر پڑے گا۔ بجلی کے بل میں 20 سے 25 فیصد تک اضافہ متوقع ہے، جب کہ پیٹرول کی قیمت میں ہر ماہ اضافے کا امکان ہے جو ٹرانسپورٹ اور اشیائے خوردونوش کی لاگت بھی بڑھائے گا۔

ایڈووکیٹ غالط طلال چانڈیو کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے اس بجٹ میں متوسط طبقے کے لیے کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں دکھائی دیتا۔ تنخواہ دار طبقہ ٹیکسز اور مہنگائی کی دوہری مار جھیلنے کے لیے تیار رہے۔ صحت، تعلیم اور روزمرہ اشیاء پر اخراجات بڑھنے کا امکان ہے جس سے ان کا مالی دباؤ بڑھے گا۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک عام شہری محمد رضوان حمید نے کہا ہے کہ اس بجٹ سے مہنگائی کی نئی لہر آنے کا امکان ہے۔ آٹا، گھی، بجلی اور پیٹرول وہ اشیاء ہیں جن کے نرخ عام گھرانے کے ماہانہ بجٹ کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ اگر فیول مہنگا ہوگا تو اس کا اثر ٹرانسپورٹ اور باقی اشیاء کی قیمتوں پر بھی آئے گا۔
واضح رہے کہ اگر روپے کی قدر مزید گرے یا عالمی منڈی میں تیل مہنگا ہوا تو اگلے چھ ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 23 سے 25 فیصد تک جا سکتی ہے۔
حکومت نے احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے اضافی فنڈز مختص کیے ہیں، لیکن یہ ریلیف محدود پیمانے پر ہی ممکن ہے۔ متوسط طبقہ جو ان پروگرامز میں شامل نہیں، وہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ تعلیم، صحت اور بجلی کے شعبے میں زیادہ براہ راست ریلیف دیتی، جو کہ نظر نہیں آتا۔

ایڈووکیٹ غالب کا کہنا ہے کہ خوراک پر سیلز ٹیکس اور درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی کے باعث آٹا، گھی، دودھ اور گوشت مزید مہنگا ہونے کا خدشہ ہے۔ تعلیم کے شعبے میں سرکاری اخراجات میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی فیسز اور نجی اسکولز کی فیسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا، جس سے والدین پر معاشی بوجھ مزید بڑھے گا۔
وفاقی بجٹ 2025-26 تکنیکی طور پر مالیاتی نظم و ضبط کا مظہر ہو سکتا ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کے اثرات تلخ ہوں گے۔ بجلی، آٹا، پیٹرول اور تعلیم وہ شعبے ہیں، جو عام شہری کی زندگی براہ راست متاثر کرتے ہیں اور ان سب میں مہنگائی کا رجحان واضح نظر آ رہا ہے۔
اگر حکومت نے فوری طور پر مہنگائی پر قابو پانے، سبسڈی کا مؤثر استعمال اور ریونیو میں متوازن اضافے کے لیے اقدامات نہ کیے، تو آنے والے مہینے عوام کے لیے مزید مشکلات کا پیغام لائیں گے۔