سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو حسب روایت حکومت نے ”اپنی کارکردگی کی قصیدہ گوئی“ کے ساتھ” خوش فہمیوں“ کے انبار لگا دیے۔ وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ہے،ملکی معیشت کو مستحکم کرے گااور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا مگر جب اس بجٹ کی تفصیلات پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ سب دعوے محض زبانی جمع خرچ،جھوٹے وعدے اور”اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ“محسوس ہوتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے،بیروزگاری عام ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے، وہاں یہ بجٹ محض”طاقتور طبقے کی خوشنودی“اور عالمی مالیاتی اداروں کی خوشی حاصل کرنے کی ایک کوشش لگتا ہے۔ کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 17.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے مگر جب ہم اس خطیر رقم کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ عوامی فلاح و بہبود کے بجائے قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات پر مشتمل ہے۔ سب سے بڑا جھٹکا یہ ہے کہ اس بجٹ کا 46.7 فیصد حصہ یعنی تقریباً آدھا، محض سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری معاشی خودمختاری کو نگل رہا ہے۔ قرض پر قرض لیا جاتا ہے اور پھر اس قرض پر سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض۔ اس سودی چکر سے نکلنے کے لیے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے،نہ اصلاحات۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے سامنے جھولی پھیلانے والی ریاست محض اپنی بقا کے لیے عوام کو قربانی کا بکرا بنائے بیٹھی ہے۔ ملک کے بنیادی مسائل مثلاً تعلیم، صحت،زراعت،صنعتی ترقی اور روزگار پر خرچ کرنے کے بجائے”سود خور نظام“ کی پرورش کی جا رہی ہے۔ دفاعی اخراجات 14.5 فیصد رکھے گئے ہیں۔
اگرچہ قومی سلامتی بے حد اہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ملک کا اندرونی معاشی و سماجی ڈھانچہ برباد ہو چکا ہو،جب تعلیم اور صحت کا نظام زمیں بوس ہو،جب لاکھوں نوجوان بے روزگار سڑکوں پر ہوں تو کیا ہم خالی بندوقوں سے قومی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں؟ دفاع کا مطلب صرف ہتھیار نہیں،ایک مستحکم،خوشحال،تعلیم یافتہ اور صحت مند قوم بھی ہے،جو بدقسمتی سے حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ گرانٹس یعنی سرکاری اداروں کو دی جانے والی بلا سود امداد 11 فیصد ہے،جو اکثر غیر فعال،ناکام اور کرپٹ اداروں کو دی جاتی ہے تاکہ سرکاری اشرافیہ کو نوازا جا سکے۔
یہ وہ ادارے ہیں جو نہ صرف ملکی خزانے پر بوجھ ہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی صفر کے برابر ہے۔ کوئی بھی باشعور معاشرہ ایسے اداروں کو ختم کر کے شفاف اور کارآمد نظام لاتا ہے مگر یہاں الٹا معاملہ ہے۔بسبسڈی صرف 6.7 فیصد رکھی گئی ہے، حالانکہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ آٹے،گھی، چینی، بجلی، گیس، پیٹرول سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے اور حکومت سبسڈی کم کر کے معیشت کو ”اصلاحات“ کے نام پر غریب دشمنی کی طرف لے جا رہی ہے۔حکومت نے غریب کی روٹی چھینی ہے اور اس کا جواز مہنگائی کے خلاف”جدوجہد“ بتایا ہے، یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
پنشن کی مد میں 6 فیصد رکھا گیا ہے اور یہ بھی بنیادی طور پر سرکاری ملازمین کے لیے ہے، جو پہلے ہی مراعات یافتہ طبقہ ہیں۔ نجی شعبے کے لاکھوں ریٹائرڈ افراد کسی پنشن،سہولت یا تحفظ کے بغیر جی رہے ہیں مگر ان کی فلاح کے لیے کوئی سکیم نہیں۔ ریاست کے اس دہرا معیار نے عوام میں عدم تحفظ، بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔ ترقیاتی پروگرام کے لیے صرف 5.6 فیصد مختص کیا گیا ہے،جو بذات خود حکومتی ناکامی کا اعتراف ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں سڑکیں،پل،سکول،ہسپتال،ڈیم اور بجلی کے منصوبے ادھورے پڑے ہیں،وہاں ترقیاتی بجٹ کی یہ شرح محض علامتی ہے۔ بیشتر ترقیاتی فنڈز یا تو کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں یا”سیاسی وفاداروں“میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ سول انتظامیہ کے لیے 5.5 فیصد رکھا گیا ہے، جو دراصل بیوروکریسی کے” اللے تللے“ چلانے کے لیے ہے۔ یہی بیوروکریسی جو فیصل آباد سے لے کر گوادر تک فائلوں کے ڈھیر تلے دبی،سسکتی، کرپشن اور اقربا پروری کی زندہ مثال بن چکی ہے، اب بھی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر رہی ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام(بی آئی ایس پی ) کے لیے صرف 4 فیصد رکھے گئے ہیں،جو کہ حکومتی دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ اگر یہ واقعی غریبوں کا بجٹ ہوتا تو سب سے زیادہ بجٹ انہی سکیمز پر خرچ کیا جاتا تاکہ براہ راست غربت میں کمی لائی جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی آئی ایس پی بھی اب ایک”سیاسی ہتھیار“بن چکا ہے، جس کے ذریعے ووٹ بینک کو مضبوط کیا جاتا ہے،نہ کہ حقیقی فلاحی کام۔ یہ بجٹ اصل میں آئی ایم ایف کے مطالبات کی فہرست ہے جس پر حکومتی مہر ثبت کر دی گئی ہے۔ٹیکس کی شرحیں بڑھائی جا رہی ہیں، یوٹیلٹی بلز آسمان سے باتیں کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود محصولات کا ہدف پورا نہیں ہو رہا کیونکہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
ارب پتی جاگیر دار،صنعت کار اور بڑے سرمایہ دار اب بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں جبکہ ایک تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا پورا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ حکومتی دعویٰ ہے کہ وہ برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں، توانائی کا بحران اپنی جگہ موجود ہے، خام مال مہنگا اور ٹیکس پالیسی اتنی غیر یقینی ہے کہ کوئی بھی صنعتکار نئی سرمایہ کاری کرنے سے گھبرا رہا ہے۔ دوسری طرف درآمدی اشیاء پر بھاری ٹیکس لگا کر” مہنگائی کو مزید ہوا “دی جا رہی ہے۔
زراعت جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اس کے لیے بھی اس بجٹ میں کوئی نمایاں پیکج نہیں دیا گیا۔ کسان کھاد،بیج، پانی اور زرعی قرضوں کے بحران کا شکار ہیں اور حکومت زبانی دعووں سے ان کا منہ بند کرانا چاہتی ہے۔ زرعی اصلاحات کے بغیر نہ فوڈ سیکیورٹی ممکن ہے، نہ ایکسپورٹ بڑھائی جا سکتی ہے مگر یہ بات حکمرانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔تعلیم اور صحت کی صورتحال تو انتہائی دردناک ہے۔ ہزاروں سکول بغیر اساتذہ، لاکھوں بچے سکول سے باہر، سرکاری ہسپتال دوائیوں سے خالی اور غریب مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے مگر ان دو اہم شعبوں پر بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی، کیونکہ یہ عوامی خدمت کے شعبے ہیں اور ہمارے حکمران ”عوام کو جوابدہ“نہیں سمجھتے۔ اس ساری صورتحال میں حکومت کی ترجیحات اور نیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
ایک ایسا بجٹ جس میں آدھی سے زیادہ رقم سود میں چلی جائے، باقی دفاع، گرانٹس، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشی پر خرچ ہو اور عوام کے لیے چند فیصد چھوڑ دیے جائیں، اسے ”عوام دوست بجٹ“کہنا خود فریبی ہے۔ اگر اس بجٹ کو ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے ”یہ بجٹ پاکستان کے عوام کا نہیں،حکمران طبقے کا بجٹ ہے“۔ عوام کو اس وقت صرف مہنگائی ہی نہیں مار رہی بلکہ حکومت کی نااہلی، بدنیتی اور غلامانہ سوچ بھی اس بربادی کی بڑی وجہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران معاشی اصلاحات کو ”ووٹ بینک“ کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی ٹیکس اصلاحات، ادارہ جاتی بہتری یا معاشی خودمختاری کی جانب سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں اگر کوئی امید باقی ہے تو وہ صرف باشعور عوام کی بیداری سے جڑی ہے۔ جب تک عوام سوال کرنا نہیں سیکھیں گے،جب تک وہ وعدوں اور دعووں کے پیچھے چھپے مفادات کو نہیں پہچانیں گے، تب تک ہر سال یہی کہانی دہرائی جاتی رہے گی، بجٹ آئے گا، وزراء خوشی منائیں گے، عوام آہیں بھرے گی اور ملک قرضوں کے اندھے کنویں میں مزید گرتا جائے گا۔ یہ وقت محض تنقید کا نہیں، عملی جدوجہد کا ہے۔ ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے، وسائل کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنانے، تعلیم و صحت کو بنیادی ترجیح بنانے اور حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ ملک صرف بجٹ دستاویزات میں ترقی کرے گا،زمینی حقائق میں نہیں۔