برطانیہ اور اس کے چار قریبی اتحادیوں نے دو اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ مسلسل فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ پابندیوں کا اطلاق وزیر خزانہ بیزالل سموٹرچ اور نیشنل سکیورٹی کے وزیر اتامر بین گوئر پر کیا گیا ہے۔ ان افراد کے لیے ان ممالک میں داخلہ ممنوع ہوگا اور ان کے اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔
اسرائیل کو غزہ میں حماس کے خلاف جنگی حکمت عملی کے باعث شدید عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ اس فیصلے میں آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے بھی شریک ہیں۔ ان میں سے کچھ نے فی الحال صرف سفری پابندیاں لگائی ہیں، جب کہ دیگر مکمل مالی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی صدر کا حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ، عرب و عالمی افواج کی تعیناتی کی تجویز
پانچوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ سموٹرچ اور گوئر نے نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ابھارا بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزیاں کیں۔ ان اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی کو احتساب کے عمل کا حصہ بتایا گیا۔
دونوں وزرا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی کمزور سیاسی حکومت کا حصہ ہیں۔ ان کا موقف مغربی کنارے اور فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے حق میں انتہائی سخت ہے، اور اسی وجہ سے وہ مسلسل عالمی تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ سموٹرچ متعدد مرتبہ مغربی کنارے کی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں، اور حال ہی میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کو مکمل طور پر تباہ ہونا چاہیے تاکہ وہاں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے دونوں وزرا کی زبان کو حد درجہ انتہا پسند اور خطرناک قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی زبان اور رویے سے فاصلہ اختیار کرے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے برطانیہ کے فیصلے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اس بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا۔
برطانوی وزارت خارجہ نے مزید انکشاف کیا کہ پچھلے سال جنوری سے اب تک شدت پسند اسرائیلی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر تقریباً 1900 حملے کیے جا چکے ہیں۔ وزارت نے زور دیا کہ ان حملوں اور دھمکیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ان اقدامات کو غزہ کی موجودہ صورت حال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسرائیل کو عالمی انسانی قوانین کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے تاکہ امن قائم کیا جا سکے اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہو۔