امیگریشن چھاپوں کے خلاف جاری مظاہروں کے پیش نظر لاس اینجلس میں لوٹ مار اور پرتشدد واقعات کے بعد میئر کیرن بیس نے شہر کے وسطی علاقے میں جزوی کرفیو نافذ کر دیا ہے، جبکہ ریاست ٹیکساس میں گورنر نے مظاہروں سے قبل نیشنل گارڈز تعینات کر دیا ہے۔
پولیس نے کرفیو کے دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ شہر کے مختلف حصوں میں پولیس نے گلیوں کو ایک ایک کر کے خالی کرایا۔ ( بی بی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک مقام پر صحافیوں نے پریس پاس دکھائے لیکن پولیس نے انہیں بھی علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا۔

اسی دوران ریاست ٹیکساس میں گورنر نے ممکنہ مظاہروں کے پیشِ نظر نیشنل گارڈ کو تعینات کر دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق، ٹیکساس کی قیادت، جو قدامت پسند خیالات کی حامل ہے، لاس اینجلس کی صورتحال کے مقابلے میں سخت مؤقف اپنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
مظاہروں کا آغاز لاس اینجلس سے ہوا لیکن اب تک یہ احتجاج کم از کم دس بڑے شہروں تک پھیل چکا ہے جن میں نیویارک، شکاگو، فلاڈیلفیا، سان فرانسسکو، اٹلانٹا، ڈیلاس اور آسٹن شامل ہیں۔ نیویارک میں مظاہرے نسبتاً پُرامن رہے تاہم “متعدد” افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی ہے۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے ایک ٹیلی وژن خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا، ‘شہری علاقوں میں تربیت یافتہ فوجی تعینات کرنا نہ صرف غیرمعمولی اقدام ہے بلکہ یہ ہمارے جمہوری اقدار کے لیے خطرہ ہے۔’ نیوسم نے ایک ہنگامی عدالتی درخواست بھی دائر کی تاکہ وفاقی سطح پر فوج کی تعیناتی کو روکا جا سکے، تاہم وفاقی عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی اور کیس کی سماعت جمعرات کو مقرر کی گئی ہے۔
اس کے برعکس، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کیرولائنا میں امریکی فوج کے ایک اڈے پر خطاب کرتے ہوئے مظاہروں کو “امن عامہ پر مکمل حملہ” قرار دیا اور کہا کہ وہ فوجی دستوں کی تعیناتی میں مزید اضافہ کریں گے۔