یہ گفتگو ایک آن لائن شو میں ہوئی جس میں عتیقہ اوڈھو کے ہمراہ نادیہ خان اور مرینہ خان بھی شریک تھیں۔ دورانِ گفتگو عتیقہ نے علی رضا کے نیم کھلے قمیص کے انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ خواتین فنکاراؤں کو ہمیشہ لباس کے حوالے سے سخت ہدایات دی جاتی ہیں، لیکن مردوں کے معاملے میں ایسے اصولوں پر کم عمل درآمد نظر آتا ہے۔
انہوں نے کہا، خواتین کو لمبی آستینیں پہننے کا کہا جاتا ہے، تو یہی اصول مردوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتے؟ عتیقہ نے واضح کیا کہ وہ جدید یا فیشن زدہ لباس کی مخالفت نہیں کر رہیں، لیکن ان کے مطابق خاندانی نوعیت کے ڈراموں میں ایک حد ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے سب سے زیادہ اعتراض علی رضا کی وہ قمیص ہے جو آدھی کھلی ہوتی ہے۔ سینے کے بال دکھانا ہر وقت ضروری نہیں ہوتا۔ گفتگو کے دوران انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں یہ بھی کہا کہ اگر علی رضا کو مسئلہ ہو تو وہ انہیں ویکسنگ سیلون لے جانے کو بھی تیار ہیں۔
اداکارہ مرینہ خان نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے عتیقہ کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ مسئلہ صرف علی رضا تک محدود نہیں ہے بلکہ ماضی میں دیگر مرد فنکار بھی ایسے انداز اپناتے رہے ہیں۔ انہوں نے شمعون عباسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بعض فنکار ٹی وی پر نمایاں طور پر بولڈ ملبوسات کا انتخاب کرتے ہیں، جس پر کم اعتراض کیا جاتا ہے۔
عتیقہ اوڈھو کے ان بیانات نے شوبز اور سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جہاں ناظرین کی بڑی تعداد نے مرد اور خواتین فنکاروں کے لیے یکساں اصولوں کے نفاذ پر زور دیا ہے۔ ایک آن لائن تبصرے میں صارف نے لکھا: پاکستانی ڈراموں میں مرد فنکار اکثر اپنی قمیص آدھی کھول کر بیٹھتے ہیں، چاہے سینہ ویکس کیا ہو یا نہیں، یہ انداز غیر ضروری اور غیر مہذب لگتا ہے۔