اسرائیل نے جمعے کی علی الصبح حملہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس نے ایران میں جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ان کے ملک کو لاحق خطرات مکمل طور پر ختم نہ ہو جائیں۔
ایران نے اس حملے میں اپنے اعلیٰ عسکری رہنماؤں کی شہادت کی تصدیق کی ہے، جن میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی اور دو جوہری سائنسدان شامل ہیں۔
ایرانی مسلح افواج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کو اس حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسے اسرائیل کی جارحانہ اور دہشت گردانہ فطرت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنے لیے تباہی کا راستہ چنا ہے جس کے نتائج اسے بھگتنے ہوں گے۔
دوسری جانب امریکی صدر نے کہا ہے کہ انہیں اسرائیلی منصوبے کا علم ضرور تھا لیکن امریکی فوج نے اس آپریشن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ اسرائیلی حملے میں ایران کے جوہری پروگرام کے ایک اہم مقام نطنز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایران کے پاس اس حملے کا جواب دینے کی کتنی صلاحیت ہے؟ فوجی طاقت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایران اور اسرائیل میں کئی فرق موجود ہیں۔ ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ اسی لاکھ ہے جب کہ اسرائیل کی آبادی صرف نوے لاکھ کے قریب ہے۔ ایران کے فعال فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار ہے، جب کہ اسرائیل کے پاس ایک لاکھ ستر ہزار فعال فوجی ہیں۔
ایران کا دفاعی بجٹ تقریباً دس ارب ڈالر کے قریب ہے، جب کہ اسرائیل اس مد میں چوبیس ارب ڈالر سے زائد خرچ کرتا ہے۔ اسرائیل کی طاقت کا اہم ذریعہ اس کی جدید فضائیہ اور جدید دفاعی نظام ہے۔ اس کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایران کے پاس 186 جنگی طیارے اور صرف 13 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ایران کے طیارے تکنیکی اعتبار سے نسبتاً پرانے ہیں۔
میزائل صلاحیت کے میدان میں ایران کی پوزیشن بہتر ہے۔ ایران کے پاس تین ہزار سے زیادہ بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔ ان میں شہاب ون، شہاب ٹو، شہاب تھری، ذوالفقار، قائم ون اور فتح 110 جیسے میزائل شامل ہیں جن کی رینج 300 سے لے کر 2000 کلومیٹر تک ہے۔ ایران کے میزائل پروگرام کو مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا اور متنوع پروگرام سمجھا جاتا ہے۔

اسرائیل نے اپنے میزائل نظام کو بھی کئی دہائیوں میں ترقی دی ہے۔ اس کے پاس جدید ترین میزائل موجود ہیں جن میں جریکو 1، 2 اور 3، لورا، ڈیلائلا اور ہارپون شامل ہیں۔ اسرائیل کے دفاع کی سب سے بڑی طاقت اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے، جو مختصر فاصلے کے میزائل اور ڈرون حملوں کو روکنے میں انتہائی مؤثر سمجھا جاتا ہے۔
جہاں ایران کی تعداد اور میزائل قوت زیادہ ہے، وہاں اسرائیل تکنیکی برتری اور فضائی صلاحیت کے لحاظ سے غالب نظر آتا ہے۔ ایران نے ضرور اپنے میزائل اور ڈرون پروگرام میں بڑی پیش رفت کی ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار، مضبوط دفاعی نظام اور جنگ کا طویل تجربہ موجود ہے۔

ایران کا دفاعی نظام اسرائیل جتنا جدید نہیں ہے، لیکن ایران کی میزائل اور ڈرون صلاحیت، اس کی بڑی آبادی، اور وسیع فوجی افرادی قوت اسے ایک ایسا ملک بناتی ہے جو جوابی کارروائی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ دونوں ممالک کی لڑائی اگر مکمل جنگ میں بدل گئی تو اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔
بین الاقوامی تعلقات اور سکیورٹی کے ماہر ڈاکٹر میاں سعید کے مطابق ایران کی اسرائیل تک زمینی رسائی یا access corridor شام اور عراق کے زریعے تھی جو اب ختم ہو چکی ۔ ایرانی فضائیہ بھی ان ملکوں کو کراس کر کے حملہ نہیں کرسکتی ۔ ایرانی میزائیلوں کو اردن اور اسرائیل میں ٹارگٹ ہٹ کرنے سے پہلے ہی intercept کرلیا جائیگا ۔ ایران صرف اپنی پراکسی کے زریعے امریکی اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسکا مطلب ہے کہ ایران کے کسی بڑے جوابی دفاعی حملے کی توقع یا تمنا رکھنا عبث ہے۔
اس ساری صورتحال میں یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس وقت عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کشیدگی کو کم کرے، تاکہ ایک اور انسانی بحران سے بچا جا سکے۔