اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات اور اعلیٰ حکام پر شدید حملوں کے بعد، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ “کسی معاہدے پر پہنچے، اس سے پہلے کہ کچھ باقی نہ بچے”۔ یہ بیان انہوں نے جمعہ کی صبح اپنے سوشل میڈیا پیغام میں دیا۔
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق متعدد اہداف پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایرانی فوجی اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جوابی کارروائی میں ایران نے اسرائیل کی طرف 100 سے زائد ڈرون بھیجے، جن کے بارے میں اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے۔
حملے ایران کے مختلف شہروں میں واقع جوہری تنصیبات اور فوجی اہداف پر کیے گئے، جبکہ ایرانی ڈرون حملے اسرائیلی حدود میں متعدد مقامات پر رپورٹ ہوئے۔

حملوں کا آغاز جمعرات کی شب ہوا اور جمعہ کی صبح تک دونوں فریقوں کی جانب سے فوجی کارروائیاں جاری رہیں۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنا ہے۔ دوسری جانب ایران نے اسرائیلی حملوں کو جارحیت قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، “میں نے ایران کو بارہا موقع دیا کہ وہ معاہدہ کرے، مگر انہوں نے یہ موقع ضائع کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکی اسلحہ دنیا کا سب سے جدید اور مہلک ہے، اور اسرائیل کے پاس اس کی وافر مقدار موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران کے سخت گیر عناصر نے انتباہات کو نظر انداز کیا، “اور اب وہ سب مارے جا چکے ہیں۔”
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “صیہونی حکومت نے اپنے لیے تلخ اور دردناک انجام تیار کر لیا ہے۔” عالمی رہنماؤں نے صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا فان ڈیر لاین نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو بڑھنے نہ دیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے اسٹاک ہوم میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ “ترجیحی طور پر کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔”
ابھی تک امریکی حکومت کی جانب سے باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم واشنگٹن میں صورتحال پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔ خطے میں کشیدگی کے پیش نظر عالمی منڈیوں اور تیل کی قیمتوں پر بھی اثرات پڑنے کا امکان ہے۔