Follw Us on:

امریکی صدر نے خاتون پادری کو’بدتمیز‘ کیوں کہا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
دعائیہ تقریب

حلف برداری کی رسم کے دوران ریورنڈ ماریان ایڈگر بڈے نے صدر ٹرمپ سے اقلیتی گروپوں اور تارکین وطن کے حقوق کے بارے میں مطالبات کیے جس پر ٹرمپ نے سرد ردعمل ظاہر کیا۔ یہ لمحہ امریکہ کی سیاست میں تقسیم اور تنقید کا عکاس بن گیا۔

واشنگٹن نیشنل کیتھیڈرل میں ہونے والی اس دعا کے موقع پر جہاں ہزاروں افراد نے خدا سے ملک کی خوشحالی اور اتحاد کے لیے دعائیں کیں اور وہاں ریورنڈ ماریان ایڈگر بڈے نے نہ صرف ملک کے اندر جاری تقسیم اور تشویش کا ذکر کیا  بلکہ صدر سے ایک ایسا مطالبہ کیا جس نے پورے ہال میں سنسنی پھیلادی۔

ماریان ایڈگر بڈے نے کہا کہ”جناب صدر میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ خدا کے واسطے ان لوگوں پر رحم کریں جو خوف کا شکار ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔”

ان کی یہ باتیں خاص طور پر ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی، تارکین وطن اور دیگر اقلیتی گروپوں کے حوالے سے تھیں جنہیں ان کے مطابق صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

بیشتر افراد کے لیے یہ ایک غیر متوقع لمحہ تھا جب بڈے نے ان حساس موضوعات پر بات کرنا شروع کی تو تقریب میں شریک ٹرمپ کے ساتھی اور وائٹ ہاؤس کے دیگر افسران کی حالت دیکھنے لائق تھی۔

جب بڈے نے سیاسی نوعیت کی یہ باتیں شروع کیں تو اس موقع پر نائب صدر جے ڈی وینس اور ان کی اہلیہ اوشا بظاہر ناراض دکھائی دیے۔ وینس بار بار اپنی بیوی کی طرف جھک کر کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ یہ لمحات تقریب کے عمومی ماحول سے ہٹ کر تھے۔

بڈے کے یہ الفاظ ایسے تھے جیسے پورے ہال میں ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی ہو، ان کے بعد بڈے نے خاص طور پر تارکین وطن کے بارے میں بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ “تارکین وطن کی اکثریت مجرم نہیں ہے وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اچھے پڑوسی ہیں، اور وہ اس ملک کا حصہ ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “جناب صدر کیا آپ ان لوگوں پر رحم کر سکتے ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ امریکا میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں؟ وہ لوگ جو ہمارے کھیتوں میں کام کرتے ہیں ،ہمارے ریستورانوں میں، اسپتالوں میں، وہ سب اچھے لوگ ہیں جو اس ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔”

یہ دعائیہ تقریب اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب بڈے نے عالمی سطح پر انسانی بحرانوں کا ذکر کیا، انہوں نے صدر سے درخواست کی کہ وہ جنگ زدہ علاقوں اور ظلم و ستم سے بھاگ کر امریکا پناہ لینے والے افراد کے بارے میں بھی سوچیں۔

لیکن ٹرمپ کے ردعمل نے اس پورے منظر کو اور بھی دلچسپ بنا دیا، جب سروس کے بعد  صدر وائٹ ہاؤس واپس آئےتو صحافیوں نے ان سے اس ہنگامہ خیز دعا کے بارے میں سوالات کیے۔

اس پر صدر ٹرمپ نے بغیر کسی جواز کے جواب دیا، “بہت دلچسپ نہیں ہے۔ ہے نا؟ میں نے نہیں سوچا کہ یہ ایک اچھی خدمت ہے۔” اس کے بعد انہوں نے کہا کہ “وہ کر سکتے ہیں، وہ بہت بہتر کر سکتے ہیں۔”

اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کی بشپ ماریان ایڈگر بڈے کوایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بدتمیز کہا اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا، کیونکہ بشپ نے کہا تھا کہ ٹرمپ ملک میں تارکین وطن اور ایل جی بی ٹی کیو افراد میں خوف پھیلا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بشپ ایک انتہاپسند بائیں بازو کی شخصیت ہیں اور ان کا لہجہ غیرمہذب تھا۔

ٹرمپ کے یہ جواب ان کی بے بسی اور بے نیازی کو ظاہر کر رہے تھے جو ان کی پالیسیوں پر تنقید کے بعد سامنے آئی۔ دراصل یہ لمحہ ایک پیچیدہ سیاسی منظرنامہ پیش کرتا ہے۔

 جہاں ایک طرف ملک میں اقلیتی گروپوں کے حقوق کی بات کی جا رہی تھی  وہیں دوسری طرف صدر کے بیانات اور پالیسیوں نے اسے ایک طاقتور سیاسی تنازعہ میں تبدیل کر دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت کا نیا دور شروع ہو رہاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ امریکا میں احترام اور انصاف کا حامل ہوگا یا ملک مزید تقسیم ہو جائے گا؟ اس کا جواب وقت کے ساتھ ہی سامنے آئے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس