ایران ایک ایسا ملک ہے، جس نے اپنے ”نام نہاد اسلامی“ انقلاب کے بعد نہ صرف اپنی سرزمین بلکہ پوری مسلم دنیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ 1979میں خمینی کے ”شیعہ انقلاب“ کے بعد ایران نے نظریاتی سرحدوں کو زمینی سرحدوں پر ترجیح دی اور ”تصدیر انقلاب“یعنی انقلاب کی برآمد کو ایک ریاستی پالیسی بنا لیا۔
یہ پالیسی وقت گزرنے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں خوں ریزی،خانہ جنگی اور پراکسی جنگوں کا موجب بنی۔عراق، شام، لبنان،یمن،بحرین،لیبیا،یہاں تک کہ افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک اس ایرانی مداخلت کا شکار بنے۔پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے، جو ایران کی پالیسیوں کے اثرات سے بری طرح متاثر ہوئے۔
1980کی دہائی میں پاکستان میں فرقہ واریت کا زہر جس شدت سے پھیلا،وہ ”ایران کی کھلم کھلا مداخلت “کا براہ راست نتیجہ تھا۔ پاکستان میں کچھ مذہبی جماعتوں کا کھلم کھلا ایران سے ”مالی اور نظریاتی تعلق “کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔مجلس وحدت المسلمین،تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور دیگر متعدد شیعہ پلیٹ فارم ایران کی سیاسی و مذہبی آبیاری کے مرہون منت تھے۔
ان تنظیموں نے مقامی سیاست،سٹریٹ پاور اور میڈیا کے ذریعے ایران کا اثر بڑھایا،جس کے جواب میں سنی شدت پسند گروہ بھی سامنے آئے اور یوں پاکستان فرقہ وارانہ خونریزی کی آگ میں جھلسنے لگا۔ایران کی”پراکسی سرگرمیاں“محض مذہبی جماعتوں تک محدود نہ رہیں۔ بلوچستان میں ”کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کا کھرا“ ایرانی سرزمین سے ملا،کلبھوشن ایران کے راستے چابہار میں چھپا بیٹھا تھا اور وہیں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی،تخریب کاری اور علیحدگی پسندوں کو ہدایات اور مالی امداد دی جاتی تھی۔
ایران نے پاکستان کی بارہا شکایات کے باوجود اس نیٹ ورک کو نظرانداز کیا، جو واضح پیغام تھا کہ ایران اپنی پراکسیز اور علاقائی مقاصد کے لیے پاکستان جیسے برادر مسلم ملک کو بھی قربان کر سکتا ہے۔ خطے میں ایران کی پالیسی ہمیشہ”فرقہ وارانہ اثر و نفوذ“پر مبنی رہی ہے۔
عراق میں صدام حسین کی حکومت گرا کر شیعہ حکومت قائم کروائی،شام میں بشار الاسد کے ظالمانہ اقتدار کو بچانے کے لیے حزب اللہ اور پاسدارانِ انقلاب بھیجے،لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے پورا ملک اپنے زیر اثر رکھا،یمن میں حوثیوں کے ذریعے سعودی عرب کی سالمیت کو للکارا،بحرین میں شیعہ اکثریت کو سنی حکمرانوں کے خلاف کھڑا کیا اور لیبیا و قطر جیسے ممالک میں عدم استحکام کو ہوا دی ۔
ان تمام واقعات میں ایران نے اپنے انقلابی نظریے کو مقدس مذہبی پردوں میں چھپا کر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ایران جو مسلم دنیا کے مرکز میں مسلسل بے چینی، خانہ جنگی اور فرقہ واریت کو بڑھاتا رہا ہے کیا اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ میں ایران پاکستان کی حمایت کا مستحق ہے؟
اس سوال کا جواب جذبات سے نہیں،حکمت اور تاریخ کی روشنی میں دینا چاہیے۔ اس وقت ایران اور اسرائیل آمنے سامنے ہیں اور یہ تصادم محض دونوں ممالک تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر پورے خطے پر پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایران پر براہ راست حملے کیے گئے،جس کے نتیجے میں ایران نے بھی میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے منہ توڑ جواب دیا۔
یہ صورتحال بظاہر ایک نئے محاذ کی نشاندہی کرتی ہے لیکن اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ معرکہ فلسطین کے لیے ایک امید بن سکتا ہے۔ اسرائیل اس وقت گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد اسرائیل کو ایک وسیع جغرافیائی دائرے میں پھیلانا ہے، جس میں اردن،جنوبی لبنان،شام کا کچھ حصہ،عراق اور حتیٰ کہ حجاز و مدینہ تک کے خطے شامل ہیں۔
یہ منصوبہ محض نقشے یا نظریے کی حد تک محدود نہیں بلکہ عالمی صہیونی لابی اس پر بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے۔ عرب ریاستوں کی کمزوری،ان کی داخلی خلفشار اور مغربی غلامی نے اسرائیل کو بے خوف بنا دیا ہے۔ آج اگر خطے میں کوئی ملک اسرائیل کے ناپاک منصوبوں کے سامنے کھڑا ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے۔
پاکستان واحد مسلم ملک ہے، جو ایٹمی طاقت رکھتا ہے اور اسرائیل کے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی میڈیا میں یہ پروپیگنڈہ زور پکڑ چکا ہے کہ پاکستان ایران کو ایئر ڈیفنس سسٹم کی تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے حالانکہ سرکاری سطح پر پاکستان نے مکمل غیر جانبداری کا اعلان کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ ایران سے نہیں بلکہ پاکستان سے ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے عالمی حلیف ہر ممکن طریقے سے پاکستان کو کمزور کرنے، تنہا کرنے اور اندرونی انتشار کا شکار بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کی حالیہ کشمکش میں پاکستانی قوم کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں،ایک تو فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت جو صدیوں سے اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں،دوسرا اسرائیل کی مسلسل توسیع پسندانہ پالیسی جو مستقبل میں پاکستان کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتی ہے اور تیسرا یہ کہ اسرائیل کی شکست مسلمانوں کے اجتماعی حوصلے کی بحالی کا باعث بن سکتی ہے۔
اد رکھنا چاہیے کہ مسلم اُمہ کی وحدت کا خواب تبھی پورا ہو سکتا ہے، جب اسرائیل جیسے شیطانی منصوبوں کو خاک میں ملایا جائے، چاہے ایران اپنے داخلی و خارجی معاملات میں کتنا ہی متنازع ہو لیکن اگر وہ اسرائیل کے غرور کو توڑنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کا فائدہ صرف ایران کو نہیں بلکہ فلسطین،پاکستان اور پوری مسلم دنیا کو ہو گا۔یہ حقیقت کسی تعصب یا فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر سمجھی جانی چاہیے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس وقت کسی خفیہ یا اعلانیہ اتحاد کا حصہ نہ بنے لیکن فلسطین کے مسئلے پر دوٹوک اور واضح مؤقف اختیار کرے۔ اگر اسرائیل ایران کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔یہ کوئی سازشی مفروضہ نہیں بلکہ اسرائیل کے دفاعی اور سیاسی تھنک ٹینکس کے بیانات اور منصوبوں سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ ہمیں دشمن کی چالوں کو صرف جذبات سے نہیں بلکہ عقل،تاریخ اور زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان خارجہ پالیسی میں وقتی مصلحتوں سے بلند ہو کر اس خطرناک کھیل کو سمجھے جو مشرق وسطیٰ میں کھیلا جا رہا ہے۔ اگر ایران اسرائیل سے نبرد آزما ہو رہا ہے تو یہ معرکہ صرف تہران اور تل ابیب کے درمیان نہیں بلکہ یہ اسلام اور صہیونیت کے درمیان ہے۔ ہم نہ ایران کے وکیل ہیں،نہ اس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے حامی لیکن ہم اسرائیل کے خلاف ہر اس آواز کے ساتھ ہیں جو فلسطین کے حق میں بلند ہوکیونکہ اگر آج ایران کی آواز دب گئی تو کل پاکستان کی آواز بھی کوئی نہ سنے گا۔
آج اسرائیل کی شکست ہماری اجتماعی فتح ہے، وہ چاہے ایرانی ہاتھوں ہو،ترکوں کے یا فلسطینیوں کے،جو بھی صہیونیت کے مقابل کھڑا ہے،وہ پاکستان کے مفاد کا محافظ ہے۔اس وقت ضرورت اتحاد کی ہے،فہم و فراست کی ہے اور دشمن کی سازشوں کو سمجھنے کی ہے۔ ہماری دعائیں اس ہاتھ کے ساتھ ہیں جو اسرائیل کو جواب دے رہا ہے کیونکہ اس کی کمزوری ہی ہمارے کل کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
ایران اور اسرائیل کے مابین موجودہ کشیدگی کو محض دو ریاستوں کی جنگ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ ایک وسیع تر عالمی صف بندی کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ ایک طرف مغرب،امریکا اور صہیونی اتحاد ہے تو دوسری طرف مسلم عوام کی امیدیں اور مزاحمت کی باقی بچی ہوئی رمق۔ ان حالات میں پاکستان جیسے ایٹمی ملک کی حیثیت صرف ایک تماشائی کی نہیں رہتی بلکہ عالمی توازن میں اس کا کردار کلیدی ہے۔
اگرچہ یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان کی اسٹریٹیجک خاموشی کئی بار فائدہ مند رہی ہے مگر مسلسل خاموشی،دشمن کے عزائم کو شہ دیتی ہے۔آج وقت ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو صرف اقتصادی،سفارتی یا وقتی سیاسی مصلحتوں کے تناظر میں نہ دیکھے بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھے۔ ایران کی مخالفت یا حمایت سے بالاتر ہو کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل اگر مشرقِ وسطیٰ میں” بدمست گھوڑے“ کی طرح کھلا پھرتا رہا تو کل وہ پاکستان کی دہلیز پر بھی دستک دے گا۔
ہمیں حکمت اور غیرت کے ساتھ یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم تاریخ میں ایک مردہ ضمیر قوم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے یا ایک باوقار،بیدار اور دشمن شناس ملت کے طور پر، خاموشی بعض اوقات مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے اور آج وقت ہے کہ ہم اپنی صف بندی واضح کریں۔