فلسطینی شہر حیفہ، جو کہ ایک قدیم بندرگاہ ہے اور اس وقت اسرائیلی قبضے میں ہے، وہاں بھارتی بزنس گروپ اڈانی کی ایک لاکھ کروڑ انڈین روپے سے زائد کی سرمایہ کاری موجود ہے۔ یہ محض بزنس نہیں، بلکہ بندرگاہ پر اختیار اور جغرافیائی رسائی کا جدید ترین ماڈل ہے۔ گزشتہ رات کے ایرانی حملے میں اسی حیفہ پورٹ کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچنے کی خبریں ہیں، اور یہ نقصان صرف اسرائیل کا نہیں بلکہ اس سرمایہ داری نیٹ ورک کا ہے جو مشرقِ وسطیٰ سے سینٹرل ایشا تک خاموشی سے اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔
یاد رہے وہی اڈانی ہے جو اسرائیلی جنگی ڈرونز بنانے والی کمپنی Elbit Systems کے ساتھ براہ راست شراکت دار ہے، اور ڈرونز بھی بناتا ہے۔
انہی ڈرونز کا سامنا اہل قدس کو بھی ہے پاکستانیوں کو بھی اور ایران کو بھی رہتا ہے۔
یہی گروپ عالمی توانائی نیٹ ورک میں بھی شامل ہے، جیسا کہ Total Energies میں اس کی شراکت داری ہے
اس طرح کے بزنس جیوپالیٹیکل انفلٹریشن کا ایک مضبوط ذریعہ بن چکی ہے۔ سرمایہ جہاں جاتا ہے، وہاں صرف پیسہ نہیں جاتا وہاں سرویلنس، ڈیٹا، زمینی رسائی، اور اکثر اوقات خاموش مقامی اثر بھی جاتا ہے۔(یہاں سمجھ لیں میکڈونلڈ وغیرہ پر احتجاج کیوں نو گو ایرا بن جاتے ہیں)
اس بات کو سمجھنا اب محض تجزیہ نہیں، ایک دفاعی ضرورت بن چکا ہے کہ ایسے بزنس نیٹ ورکس صرف مالی بہاؤ نہیں چلاتے، یہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی زیادہ مؤثر مانیٹرنگ، انفارمیشن کلیکشن، اور “مقامی نیٹ ورک” بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ نیٹ ورک کی شکل میں پھیلتے ہیں بندرگاہوں، پاور پلانٹس، کوٹنگز، فائبر، سافٹ ویئر، اور مقامی لیبر ہبز کی شکل میں اپنی جڑیں مضبوط اور گہری کرلیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک مشہور فلم Mr. & Mrs. Smith کا پروڈیوسر Arnon Milchan اسرائیل کے نیوکلیئر انٹیلیجنس آپریشنز کا سرگرم رکن رہا ہے، جس نے امریکہ سے حساس ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی خفیہ طور پر اسرائیل منتقل کی۔ (اس پر الگ تفصیل ان شاءاللہ)
جب فلموں کے پردے اور بندرگاہوں کے گودام ایک ہی طاقت کے نیٹ ورک سے جُڑ جائیں تو یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ کون کہاں بیٹھا ہے اور کیا کررہا ہے۔
پاکستان میں بھی متعدد ایسی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرگرم ہیں جن کے عالمی سطح پر ایسے گروپس سے گہرے تجارتی مراسم ہیں، جو اڈانی جیسے متنازع نیٹ ورکس کا حصہ یا ہم نفس رہے ہیں۔
ظاہر ہے، اڈانی ہی نہیں دنیا میں ایسے کئی دیگر بزنس نیٹ ورکس موجود ہیں جو بظاہر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں مگر ان کی رسائی، اثر پذیری اور جغرافیائی footprint غیر معمولی ہوتی ہے۔ BASF جیسے اداروں کا کیمیکل چینز میں وسیع نیٹ ورک ہو یا Total جیسی توانائی کی کمپنیاں جو ایک وقت میں پاکستان کے طول و عرض میں موجود تھیں یہ سب وہ نیٹ ورکس ہیں جن کی موجودگی یہ پوٹینشل رکھتی ہے کہ وہ صرف کاروبار تک محدود نہیں رہتے، بلکہ بعض اوقات یہ سائلنٹ انفراسٹرکچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یقیناً یہ کہنا مقصود نہیں کہ ہر بیرونی کمپنی کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہے، مگر آج کی دنیا میں نیٹ ورک صرف نفع کے لیے نہیں بنائے جاتے —وہ ڈیٹا، لوکیشن، لاجسٹکس اور لوکل رسائی کے لیے بھی ہوتے ہیں۔
اس لیے سوال یہ نہیں کہ کوئی کمپنی جاسوس ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم نے کسے، کہاں تک رسائی دے رکھی ہےاور کیوں۔ اور وہ کل کو ایسا خطرہ تو نہیں بن سکتا کہ جیسے ایک رات میں انہوں نے ایرانی قیادت کو اڑا دیا۔
یہ وقت ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ حیفہ سے کراچی تک کن قدموں نے چپ چاپ اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔
بہر کیف حیفہ پر اڈانی اسراٸیل نقصان مبارک ہو۔