Follw Us on:

ایران اسرائیل جنگ تیسرے روز کہاں کھڑی ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Whatsapp image 2025 06 15 at 5.21.14 pm (1)
ٹرمپ اور ان کے امریکا کی اصل دل چسپی پاکستان سے نہیں انڈیا کی سلامتی سے تھی۔ (فوٹو: فائل)

ایران اسرائیل جنگ تیسرے روز کہاں کھڑی ہے؟ اس سوال پر غور کرتے جائیں، منظر کھلتا جائے گا۔ جنگ کے تیسرے روز اسرائیل کے دو حلیفوں یعنی امریکا اور برطانیہ نے بہ انداز دیگر اسرائیل کی گلو خلاصی کے لیے آواز بلند کی ہے۔

برطانیہ نے کہا ہے کہ اب تحمل اور سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کے حل کا وقت آ گیا ہے۔عین اسی وقت ڈیل ایکسپرٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ڈیل کرا سکتے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی طرف سے اس نوعیت کے بیانات نے حالیہ پاکستان- انڈیا جنگ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ انڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو اس موقع پر امریکی صدر نے مکمل طور پر لا تعلقی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک کشمیر پر ڈیڑھ ہزار سال سے لڑتے جھگڑتے چلے آ رہے ہیں، اب بھی وہ خود ہی جھگڑا چکا لیں گے۔

اگلے ایک ڈیڑھ دن میں پاکستان نے جب انڈیا کی اچھی طرح پٹائی کر دی تو اس تنازع سے لا تعلقی اختیار کرنے والے ٹرمپ ڈیل ماسٹر بن کر تنازع میں کود گئے اور جنگ بندی کرا دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ٹرمپ اور ان کے امریکا کی اصل دل چسپی پاکستان سے نہیں انڈیا کی سلامتی سے تھی۔

ایران اسرائیل جنگ میں بھی یہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک کا تعلق میدان جنگ سے ہے اور دوسرے کا ایران کے فطری حلیفوں یعنی مسلم دنیا سے ہے۔

نیتن یاہو نے اگرچہ کہہ رکھا تھا کہ وہ طویل جنگ کی توقع کرتے ہیں جو دو ہفتے تک پھیل سکتی ہے لیکن امریکا کی طرف سے ڈیل اور برطانیہ کی طرف سے تحمل اور سفارت کاری کو موقع دینے کی اپیل واضح کرتی ہے کہ ان تین دنوں میں ایران نے جتنا بھرپور جواب دے دیا ہے، عالمی طاقتیں اس کی توقع نہیں رکھتی تھیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران کی طرف سے ایسا کیا ہوا ہے، جس نے مغرب کو پریشان کر دیا ہے؟

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے حلیف یا سرپرست اس مفروضے کے ساتھ جنگ میں کودے تھے کہ ایران عالمی تنہائی کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں ایران کی فوجی طاقت کسی بڑی جنگ کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اس مفروضے کی بنیاد یہ تھی کہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی ملٹری مشین ازکار رفتہ ہو چکی ہے کیوں کہ 1979 سے اب تک جنگی ساز و سامان میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا تھا۔ یہ مفروضہ وزن رکھتا ہے۔

ایران کی فضائی قوت پر خاص طور پر تحفظات تھے۔ حالیہ تین روزہ جنگ کے دوران میں اس کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔ اسرائیل کے سینکڑوں جہاز ایران کی فضاؤں میں اڑتے دیکھے گئے ہیں، جن کے خلاف ایرانی فضائیہ تاحال حرکت میں نہیں دیکھی گئی۔ یقیناً یہ ایران کا کمزور پہلو ہے۔ جدید جنگوں میں فضائیہ کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ حالیہ پاکستان-انڈیا جنگ کے دوران بھی یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران نے اپنے اس کمزور پہلو کے باوجود ایک کارنامہ کر دکھایا ہے۔

پابندیوں کے زمانے میں ایران نے مغرب سے اسلحہ کے حصول پر وقت ضائع نہیں کیا، یہ قابل فہم ہے لیکن روس اور چین سے تو اسلحے کا حصول ممکن تھا لیکن ایران کی توجہ اس جانب بھی نہیں دیکھی گئی۔ ظاہر ہے کہ ایران اس کی وجہ بہتر جانتا ہو گا لیکن حکمت عملی کے اس  خلا کے باوجود ایران نے ایک کام خوب کیا۔ اس نے اپنے میزائل پروگرام پر بھرپور توجہ دی، جس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔

ایران نے اس جنگ کے دوران میں سینکڑوں میزائلوں سے اسرائیل پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے، جس کے پاس میزائل حملوں سے بچاؤ کا نظام موجود ہے جسے آئرن ڈوم کہتے ہیں۔ جنگ کے دوران میں یہ نظام مکمل طور پر فعال ہے لیکن اس کے باوجود تل ابیب سمیت اسرائیل کے مختلف حساس علاقوں میں ان میزائلوں نے تباہی مچائی ہے۔ اسرائیل کے جانی نقصانات کی جو اطلاعات اب تک میسر آئی ہیں، ان کا ایران میں ہونے والے جانی نقصان سے بظاہر کوئی مقابلہ دکھائی نہیں دیتا لیکن اس قسم کے موازنے سے قبل یہ ضرور ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسرائیل آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ اسرائیل کا نقصان اس سے زیادہ ہو جتنا بتایا گیا ہے۔ اس کے باوجود نقصانات کی تفصیل رفتہ رفتہ سامنے آر ہی ہے۔ یہ اہم ہے۔

اس جنگ کا ایک اور پہلو اسرائیلی طیاروں کی تباہی ہے۔ ایران نے اب تک اسرائیل کے 13 طیارے تباہ اور دو پائیلٹ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیل نے پائلٹوں کی گرفتاری کی تردید کی ہے لیکن طیاروں کی تباہی کے معاملے پر وہ خاموش ہے۔ یہ خاموشی معنی خیز ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں طیاروں کی تباہی کی تصدیق اگرچہ آزاد ذرائع سے نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود اس اطلاع میں وزن دکھائی دیتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی طرف سے ڈیل، تحمل اور سفارت کاری کی باتیں کبھی نہ ہوتیں اگر اسرائیل کا ایسا نقصان نہ ہوتا۔ امریکا اور برطانیہ کی بے چینی ان نقصانات کی تصدیق کرتی ہے۔

  مغربی طاقتوں کی طرف سے تحمل اور ڈیل کی باتوں کے باوجود ان کی دو عملی بلکہ منافقت آشکار ہے۔ امریکا اگرچہ کہہ رہا ہے کہ اس حملے سے اس کا لینا دینا کچھ نہیں لیکن نیتن یاہو مسلسل دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ بھی ریکارڈ پر ہے۔ اس نے کہہ رکھا ہے کہ جب ضرورت ہو گی، وہ اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے 20 ہزار میزائل یوکرین سے مشرق وسطیٰ منتقل کر دیے ہیں۔ یہ میزائل ظاہر ہے کہ ایران کے حق میں تو استعمال نہیں ہوں گے۔

جہاں تک تحمل کے علمبردار برطانیہ کا معاملہ ہے ، اس نے اپنا تباہ کن بحری بیڑا ڈسٹرائر اسرائیل روانہ کردیا ہے، جسے ایران نے آبنائے ہرمز میں روکا تو اس نے راستہ بدل لیا۔ کیا اس منزل بھی تبدیل ہوئی ہے، اس کا امکان کم ہے۔ ان دونوں ملکوں کی طرح فرانس نے بھی اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ اطلاعات ظاہر کرتی ہیں کہ ایران کے میزائل کارگر ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کیا کر رہی ہے؟ ایران کے خلاف جارحیت کرتے ہوئے اسرائیل کے پیش نظر مسلم دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات کا پہلو ضرور رہا ہو گا کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی نارملائزیشن کے باوجود ممکن ہے کہ طاقت ور مسلمان ملک لاتعلقی اختیار کیے رکھیں۔ اگر ایسی کوئی توقع تھی بھی تو وہ پوری نہیں ہو سکی۔

جنگ شروع ہوتے ہی سعودی عرب نے ایرانی حاجیوں کو سرکاری مہمان بنا لینے کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان ایک بڑا اور غیر معمولی تو تھا ہی لیکن خود شاہ سلمان کی طرف سے اس اعلان کی اہمیت نے مزید اضافہ کر دیا یوں ایران کے دشمنوں کو بہ انداز دگر یہ پیغام دیا گیا کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ مسلم دنیا ایران کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ ولی عہد شہزادہ محمد کے ایران کے صدر سے رابطے اور گفتگو بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔

اس موقع پر پاکستان کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا، وہ بہت اہم ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے دوبار ایران کے صدر مسعود پزشکیان سے گفتگو کی ہے اور دوٹوک الفاظ میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بھی اتفاق رائے سے قرارداد منظور کر کے ایک واضح پیغام دیا ہے۔ خواجہ آصف کی طرف سے مسلمان ملکوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ اس پر مستزاد ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے ایران کی حمایت اور اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے امریکی صدر سے بات چیت کر  کے  انھیں مسئلہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم دنیا نے مشکل کی اس گھڑی میں ایران کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ایران کے لیے مسلم دنیا کی یہ حمایت غیر معمولی ہے جس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ اور امریکا کی طرف سے ڈیل، سفارت کاری اور تحمل کی باتوں کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو صورت حال بہ ظاہر حوصلہ افزا لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی ہمت اور حوصلہ  بروئے کار آ رہا ہے۔ آئندہ دو تین روز میں صورت حال مزید واضح ہو جائے گی۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس