ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے حالیہ شدید ترین مرحلے نے صرف مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ پر عالمی برادری کے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں، جو نہ صرف سیاسی مؤقف کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات اور خارجہ پالیسی کی جہتوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
عراق:-
عراق کے وزیرِاعظم محمد شیعہ السوڈانی نے یورپی یونین کے سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کے ایران پر حملوں کو “عراق اور پورے خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ” قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے دراصل جاری سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہیں، جن کا مقصد پورے مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار بنانا ہے۔

فرانس:-
فرانسیسی وزیر خارجہ ژان نوئل بارو نے ایران پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام اسرائیل ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کی سلامتی اور وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
ان کا مؤقف بین السطور واضح کرتا ہے کہ یورپ خطے میں کسی بھی نئی ایٹمی قوت کے ابھرنے سے خائف ہے اور اسرائیل کو ایک اسٹریٹیجک اتحادی تصور کرتا ہے۔

پاکستان:-
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا ہفتہ کے روز قومی اسمبلی سے خطاب میں کہنا تھا کہ جس طرح اسرائیل نے یمن، ایران اور فلسطین کو ہدف بنایا، اس وقت لازم ہے کہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس بلایا جائے اور ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ اسرائیل کا مل کر مقابلہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر ایسے وقت پر حملہ کیا، جب ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت میں مصروف تھا۔ پاکستان اپنے مؤقف پر روز اول سے مضبوطی سے کھڑا ہے کہ صیہونیت ساری اسلامی دنیا کی دشمن ہے۔
وزیرِدفاع کا کہنا تھا کہ ایران برادر اور ہمسایہ ملک ہے اور سینکڑوں برسوں سے ہمارے رشتے ہیں، یہ ایسے رشتے ہیں جن کی تاریخ میں مثال کم ہی ملتی ہو۔ہم اس ایوان کی وساطت سے ایرانی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم ایران کے ساتھ ہیں، بین الاقوامی فورمز پر پاکستان ایران کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

جرمنی:-
جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے براہِ راست ایران پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تہران اسرائیل میں شہری اہداف پر بمباری فوری طور پر بند کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ جرمن حکومت اس امکان کے لیے تیاری کر رہی ہے کہ ایران جرمنی کے اندر اسرائیلی یا یہودی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں ایرانی اثر و رسوخ اور ممکنہ ردعمل کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

ترکی:-
ترکی نے ایک معتدل مگر متوازن مؤقف اختیار کیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے روسی ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پریشان کن تنازعے کا حل صرف اور صرف سفارت کاری سے ممکن ہے۔

واضح رہے کہ اگرچہ ترکی ایران کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتا ہے، مگر وہ اس مرحلے پر خطے میں کشیدگی میں کمی کو ترجیح دے رہا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تناؤ نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو سفارتی و نظریاتی طور پر تقسیم کر دیا ہے، جہاں مغربی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام اور عسکری کاروائیوں کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کر رہی ہیں، وہیں کچھ علاقائی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو خطے میں کشیدگی کا اصل محرک قرار دے رہی ہیں۔
یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بڑی طاقتیں اس تنازعے کو سفارتی میز پر لانے کے بجائے اپنے تزویراتی اتحادوں کی بنیاد پر مؤقف اپنا رہی ہیں، جو خطے میں امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔