پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ”بلاسفیمی بزنس“ کے حوالے سے ایک باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بعض وکلا،وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکار،حساس اداروں کے افسران اور حتیٰ کہ بعض جج حضرات بھی توہین مذہب کے مقدمات کو ”کاروبار“ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ بے گناہ افراد کو جال میں پھنسا کر ان پر جھوٹے مقدمات بناتے ہیں تاکہ ”مالی مفادات“ حاصل کیے جا سکیں۔یہ ایک نہایت سنگین دعویٰ ہے،جو سننے میں شاید ہمدردی پر مبنی لگے لیکن جب اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک مخصوص لابی کا گھڑا ہوا بیانیہ ہے، جس کا مقصد ناموسِ رسالت ﷺ کے قانون کو بدنام کرنا اور اسلامی شعائر پر حملہ آور ہونا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی یلغار نے جہاں معلومات کی دنیا کو وسعت دی ہے، وہیں اس نے فساد، فحاشی اور گستاخی کو بھی عام کیا ہے، خاص طور پر مذہبی شعائر،پیغمبرانِ کرام، صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ عظام اور قرآن و سنت پر حملے کرنے والے افراد اب با آسانی یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہیں اور عوام الناس کو دین سے بدظن کرنے یا اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب ان پلیٹ فارمز پر ایسی پوسٹس نظر نہ آئیں، جن میں اسلام کے مقدسات کی توہین نہ کی گئی ہو۔ یہ مسئلہ کوئی”فرضی یا تصوراتی“نہیں بلکہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔
خود ریاستی ادارے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صرف گزشتہ پانچ برسوں میں سوشل میڈیا پر توہین رسالت ﷺ، توہین قرآن، توہین صحابہؓ و اہل بیتؓ کے متعلق پانچ سو سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، جن میں ایک بھی کیس جھوٹا ثابت نہیں ہوا۔ پی ٹی اے،ایف آئی اے اور سائبر کرائم یونٹ کے مطابق یہ تمام مقدمات شواہد،ڈیجیٹل فرانزک اور گواہیوں کی بنیاد پر درج کیے گئے اور ان میں اکثر ملزمان نے یا تو جرم کا اعتراف کیا یا ان کے خلاف نا قابل تردید ثبوت عدالت میں پیش کیے گئے۔
اس کے باوجود یہ کہنا کہ توہین مذہب کے قوانین کو”کاروبار“کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،انصاف،عقل اور دیانت،تینوں کے منافی ہے۔ 2006 میں جب ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کے اخبارات میں نبی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے۔
اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اَز خود نوٹس لیتے ہوئے یہ تاریخی حکم دیا تھا کہ ان افراد کے خلاف پاکستان میں ایف آئی آر درج کی جائے اور پی ٹی اے ان ویب سائٹس کو بلاک کرے، جہاں یہ مواد موجود ہے۔ اس عدالتی فیصلے نے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ عالمی سطح پر ایک پیغام دیا کہ مسلمانوں کے لیے ان کے نبی ﷺ کی حرمت ناقابل مذاق ہے۔
یہ امر بھی غور طلب ہے کہ جس مغربی دنیا کو بعض روشن خیال حضرات ”آزادیِ اظہار کا گہوارہ“سمجھتے ہیں،وہ خود بھی کچھ موضوعات پر مکمل پابندی لگاتی ہے، مثال کے طور پر یورپ میں”ہولو کاسٹ“پر سوال اٹھانا جرم ہے۔ فرانس،جرمنی اور ہالینڈ جیسے ممالک میں اگر کوئی شخص ”ہولو کاسٹ“ کو جھوٹا یا مبالغہ قرار دے تو اسے فوری گرفتار کیا جاتا ہے اور عدالتیں اسے کئی سال کی سزا دیتی ہیں مگر جب مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی توہین ہوتی ہے تو یہی ممالک” آزادیِ اظہار“ کا پرچم لہرانے لگتے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو آئین پاکستان کی روح سے جوڑ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون محض ایک فرد کی حفاظت نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی، دینی اور روحانی سالمیت کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 227 واضح کرتا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں گے اور کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہو سکتا۔
اسی تناظر میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 تا 298 کو شامل کیا گیا، جن میں توہین مذہب کے مختلف پہلووں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جو لوگ ان قوانین کو ”بزنس“ قرار دے کر بدنام کر رہے ہیں،وہ دراصل معاشرے میں موجود دینی غیرت و حمیت کو مجروح کر رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ناموسِ رسالت ﷺ کسی فرد،جماعت یا پارٹی کی جاگیر نہیں بلکہ ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔
نبی کریم ﷺ سے محبت ہمارے دین کا وہ ستون ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں ایک اور افسوسناک رجحان یہ ہے کہ جب کوئی شخص یا جماعت ان گستاخیوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو فوراً اس پر ”بلاسفیمی گینگ“ یا ”تکفیری مافیا“کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو اسلام پسند عناصر کو ہمیشہ سے بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کا اصل ہدف گستاخی کرنے والے نہیں بلکہ ان کے خلاف بولنے والے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ اس سے معاشرے میں ایک خطرناک تفرقہ پیدا ہو رہا ہے۔ آج جب ہم اس قانون کی مخالفت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض قانونی تنقید نہیں بلکہ نظریاتی یلغار ہے۔
سیکولر اور لبرل عناصر چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے، جہاں مغرب کی طرح مذہب کا کوئی دخل نہ ہو،جہاں ہر چیز کو آزادیِ اظہار کی چھتری کے نیچے رکھا جا سکے،چاہے وہ گستاخی ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کو اس وقت”دین دشمن قوتوں“ نے ایک” ہتھیار“ بنا کر ہمارے نوجوانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک منظم گروہ متحرک ہے جو بظاہر ”آزادی اظہار“، ”عورت کی آزادی“، ”فری سپیچ“ اور ”سوشل جسٹس“کے نعروں کے ساتھ سامنے آتا ہے لیکن درپردہ ان کا مقصد صرف اور صرف دینی شعائر کی توہین،ناموس رسالت پر حملے اور اسلامی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنا ہے۔
یہ گروہ محض ”نظریاتی محاذ“ پر سرگرم نہیں بلکہ انہوں نے” معاشرتی زوال“ اور” اخلاقی پستی “کو بھی اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر متحرک وہ لبرل اور ”روشن خیال“لڑکیاں جنہیں خود بھی اس بات کا شاید ادراک نہیں کہ وہ کس” فکری ایجنڈے “کا حصہ بن رہی ہیں،ان کے ذریعے نوجوانوں کو ”جسمانی اشتعال“،جنسی آزادی،بے حیائی اور بے راہ روی کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
یہ عمل نہ صرف دین،اخلاق اور تہذیب کے خلاف ہے بلکہ قوم کے مستقبل کو برباد کرنے کی سازش ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر خود ذاتی طور پر ایسی کئی ویڈیوز اور پوسٹیں دیکھی ہیں جن میں نہ صرف مذہب کے مقدسات کا مذاق اڑایا گیا بلکہ باقاعدہ طور پر اسلام،قرآن،رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی ذات پر رکیک حملے کیے گئے ہیں۔
یہ ویڈیو کلپس کسی فکری یا نظریاتی بحث کا حصہ نہیں بلکہ انتہائی نچلے درجے کی فحاشی،طنز،گالی گلوچ اور جنسی اشتعال انگیزی پر مشتمل ہیں۔ ان میں نوجوانوں کو آزادی کے نام پر گمراہ کرنے،ان کے ایمان کو متزلزل کرنے اور انہیں اپنے دین سے بدظن کرنے کی کھلی کوشش کی گئی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی ہے،جو بیرونی ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہے۔
ایسے میں اگر کوئی حسن معاویہ جیسا باشعور،جری،نڈر اور غیور نوجوان،ان فتنہ پرور عناصر کے خلاف قانونی و دینی محاذ پر کھڑا ہو جاتا ہے تو بجائے اس کی تحسین کے،اُسے سازشوں میں الجھایا جاتا ہے،اس پر پیسوں کے لیے جھوٹے مقدمات بنانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ بہتان بازی نہ صرف جھوٹ پر مبنی ہے بلکہ انتہائی بے شرمی اور بد دیانتی کا مظاہرہ ہے، جو لوگ حسن معاویہ جیسے دینی حمیت اور غیرت رکھنے والے مذہبی کارکن کو بدنام کر رہے ہیں،وہ دراصل ان قوتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں جو پاکستان میں اسلامی تشخص کو مٹانا چاہتے ہیں۔
اگر حسن معاویہ اور ان جیسے دیگر افراد پیسے لے کر جھوٹے مقدمات بناتے ہوتے تو کب کے بے نقاب ہو چکے ہوتے لیکن سچائی یہ ہے کہ آج تک ان کے خلاف کوئی ایک بھی مقدمہ ثابت نہیں ہو سکا بلکہ جتنے کیسز میں انہوں نے کردار ادا کیا،اُن میں عدالتیں،تحقیقاتی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں خود تسلیم کر چکی ہیں کہ شواہد مستند ہیں اور قانون کے مطابق کارروائی ہوئی ہے۔
ان پر الزام لگانا اس بدبخت گروہ کا آخری حربہ ہے،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر معاشرہ حسن معاویہ جیسے نوجوانوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو ان کا مکروہ ایجنڈا زمین بوس ہو جائے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ معاشرہ اس وقت اپنے حقیقی محافظوں کو پہچانے،اُن کی عزت کرے،اُن کا دفاع کرے اور اُن کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کو بے نقاب کرے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم نے آج ان گستاخوں،فحاشی پھیلانے والوں اور دین دشمن ایجنڈا چلانے والوں کے خلاف اجتماعی مؤقف نہ اپنایا تو کل ہمارے بچے نہ مسجد کا راستہ جانیں گے،نہ قرآن کی عظمت کو پہچانیں گے،نہ رسول اکرم ﷺ کی حرمت کا شعور رکھیں گے، پھر ہم تاریخ کے مجرم ہوں گے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم حسن معاویہ جیسے نوجوان دینی کارکنوں کی پشت پر کھڑے ہوں اور انہیں بتا دیں کہ وہ تنہا نہیں بلکہ ایک زندہ،جاگتی،بیدار اور محب رسول اُمت ان کے ساتھ ہے۔ ہم اُن گستاخوں کو یہ پیغام دیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ناموس پر ہمارا ایمان ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی فحاشی،گستاخی اور بے حیائی کا مقابلہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ ایمان، غیرت اور حمیت کے ساتھ متحد ہو جائے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے،یہی عین اسلام ہے۔ لہٰذا اب وقت آ چکا ہے کہ اسلامی مقدسات کے خلاف کسی بھی قسم کی گستاخی یا توہین پر ریاست زیرو ٹالرنس پالیسی کا اعلان کرے اور اس پر بلاامتیاز عملدرآمد بھی کرے۔
حکومت ہو یا عدلیہ،قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا میڈیا،سب کو یہ طے کرنا ہو گا کہ ناموسِ رسالتﷺ،حرمت قرآن اور شعائر اسلامی کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر عدالتیں ایسے حساس مقدمات میں مدعیان پر بھونڈے الزامات لگائیں،انہیں ”بلیک میلر“یا ”گینگ“ کا حصہ قرار دیں یا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کریں تو پھر سچ یہی ہے کہ اس ملک کا اللہ ہی وارث ہے۔
انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ اگر ایمان اور غیرت کے بجائے سیکولر ازم اور لبرل ازم کے ایجنڈے پر عمل کرنے لگیں تو یہ قوم تباہی کے گڑھے میں گرنے سے نہیں بچ سکتی۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اب تک جتنے افراد گستاخی کے مقدمات میں گرفتار ہوئے،کیا ایک بھی ایسا نکلا ہے جو واقعی بے گناہ ہو؟شواہد،ویڈیوز،سکرین شاٹس،سب کچھ واضح ہوتا ہے اور مقدمات عموماً ناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔
اگر ان گستاخوں کو سزائیں نہ ملیں تو کل کوئی بھی شخص دینی شعائر پر حملہ کرنے سے نہیں جھجکے گا۔ حسن معاویہ جیسے غیور دینی کارکنوں پر جھوٹے الزامات لگانے والے دراصل لبرل ازم کے وہ پرچارک ہیں، جو دین،ملت اور ریاست کے دشمن ہیں۔ یہی وہ ایجنٹ ہیں جو پاکستان کے نظریاتی وجود پر حملہ آور ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان کا چہرہ بے نقاب کیا جائے اور اسلام کے دفاع میں ایک واضح،دو ٹوک اور غیر مبہم مؤقف اختیار کیا جائے، یہی بقاء کا واحد راستہ ہے۔
نوٹ: مصنف کی یہ تحریر ان کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔ ادارے کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر