جنگ بندی کی طرف بڑھتے ہوئے حالات نے نئی کروٹ لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگ میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا پہلا بڑا اشارہ نیتن یاہو نے دیا۔ اس نے تہران سے انخلا کی بات کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی پیروی کی اور اس نے بھی کہا کہ تہران خالی کر دیا جائے۔
تہران کو خالی کر دینے کی بات بہت خطرناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام شہر سے نکل جائیں کیوں کہ اس پر زیادہ شدت سے حملے ہوں گے۔ شدت سے حملوں کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا لیکن نیتن یاہو نے جس اسلوب میں بات کی اس کا مطلب اس سے کچھ بڑھ کر تھا۔
اس نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ تاثر دیا کہ جنگ نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، جس میں ایران کی اصل قیادت یعنی رہبر آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ تاثر اس کے باوجود دیا جا رہا ہے کہ دو روز ہی پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلق سے یہ انکشاف سامنے آ چکا تھا کہ نیتن یاہو نے ان سے رہبر کو نشانہ بنانے کی اجازت چاہی تھی لیکن انھوں نے نیتن یاہو کو معاملات کو اس سطح پر لے جانے سے روک دیا۔
ایسی خبریں یوں ہی سامنے نہیں آ جاتیں، اس کا اہتمام دیا جاتا ہے، جس کا مقصد فریقین کو کوئی پیغام دینا ہوتا ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے نیتن یاہو کو اس انتہا پر جانے سے روکنے کی خبر سامنے لانے کا مطلب بھی یہی تھا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ جنگ کا فوری خاتمہ مقصود ہے۔
پھر ایسا کیا ہو گیا کہ ٹرمپ بھی نے بھی نیتن یاہو کی پیروی کرتے ہوئے تہران کو خالی کرنے کی بات کہہ دی، جس کے جواب میں تہران کو بھی دھمکی دینی پڑی کہ تل ابیب خالی کر دیا جائے۔ ایک دھمکی تہران سے یہ بھی دی گئی کہ اسرائیل کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا جائے گا۔
اسی دوران میں حملوں مزید شدت پیدا ہوئی۔ تہران میں سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر حملہ کیا گیا۔ دیگر مقامات پر حملوں کے نتیجے میں اس کے شہید ہونے والے جوہری سائنس دانوں کی تعداد 14 ہو گئی، جب کہ عام شہریوں کی تعداد سوا دو سو تک پہنچ گئی۔
جنگ کے پانچویں روز میں داخل ہوتے ہوئے جو اشارے مل رہے ہیں، کیا ان کا مطلب یہی ہے جو بظاہر دکھائی دے رہا ہے؟ فریقین نیز امریکی صدر نے جس قسم کا لب و لہجہ اختیار کر رکھا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جی سیون کے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کر کے اس تاثر کو مزید قومی کیا۔ اسی دوران میں انھوں نے یہ کہنا بھی ضروری خیال کیا کہ ایران جنگ جیت نہیں رہا۔
جی سیون کے اعلامیے میں جہاں اسرائیل کا حق دفاع تسلیم کیا گیا تھا وہیں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئی اے ای اے سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ان حملوں کو بند کرائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اختلاف کرتے ہوئے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ دستخط نہ کرتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ کانفرنس ناکام ہو گئی ہے۔ اس تاثر سے بچنے کے لیے جی سیون کے راہ نماؤں کو اعلامیہ تبدیل کرنا پڑا، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے دستخط کر دیے۔ نئے اعلامیے میں ایران کو کشیدگی میں اضافے کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔
صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ دوسرے پہلو کا تعلق خطرناک اسلحے کی نقل و حرکت اور مشرق وسطیٰ میں منتقلی ہے۔ امریکا اور دیگر قوتوں کی طرف سے اسلحے کی منتقلی سے بھی یہی تاثر قوی ہو رہا ہے کہ جنگ مزید شدت اختیار کر رہی ہے۔
کیا امریکا نیتن یاہو کی خواہش کے عین مطابق واقعی جنگ میں شدت کی طرف بڑھ رہا ہے؟ بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے لیکن تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے۔
کانفرنس کے خاتمے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنا دورہ کینیڈا مختصر کر کے واپس امریکا پہنچ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ انھوں نے جنگ کی صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے سچیوایش روم قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک خبر یہ بھی آئی کہ انھوں نے وائٹ ہاؤس کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایرانی حکام سے جلد از جلد ملاقات کے انتظامات کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ گرم اور سرد پھونکیں ضرور مار رہے ہیں لیکن فی الاصل وہ کسی اور منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ کیا ہے؟
یہ منصوبہ وہی ہے جس کے اندازے ہیں یعنی جنگ بندی لیکن امریکا کی ایک مشکل ہے۔ یہ مشکل کیا ہے؟ یہ مشکل وہی ہے جس کا تاثر مسلسل قوی ہو رہا ہے کہ توقعات کے بالکل برعکس ایران نے نہ صرف بھرپور جواب دیا ہے بلکہ اسرائیل کی ایسی پٹائی کر دی ہے، جس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ اسرائیل کی یہی پٹائی ہے، جس سے تہران کی فتح کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔
یہی تاثر ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس کی تردید ضروری سمجھی ہے۔ وہ سب سے پہلے اس تاثر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تا کہ عالمی سطح پر ایران کی برتری کا تاثر بھی پیدا نہ ہو اور اس تاثر کی وجہ سے ایران بھی کوئی سخت مؤقف اختیار کر کے مشکلات بھی پیدا نہ کرے۔
ٹرمپ اپنی ان تمام مشکلات کے باوجود جنگ بندی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ماحول بنانا پڑے گا، یہ ماحول کیسے بنے گا، اس پر تفصیل سے بات ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں ضرور امن ہوگا اور نیتن یاہو کا خواب پریشاں ہو کر رہے گا۔
جنگ کے پانچویں روز یہ بات پورے اطمینان سے کہی جا سکتی ہے۔ جی سیون کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم اور فرانس کے صدر کی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دو روز میں دیگر تمام معاملات کے مقابلے میں صرف اور صرف مشرق وسطیٰ پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ کشیدگی کے بڑھنے کا امکان ہوتا تو صرف دو روز کی بات نہ کہی جاتی۔
نوٹ: مصنف کی یہ تحریر ان کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔